وفاقی وزیر خزانہ اسد عمرکہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کا بحرانی دور ختم ہوگیا، بحرانی دور ختم ہونے کے بعد پاکستانی معیشت میں ڈیڑھ سال تک مستحکم ہونے کا مرحلہ رہے گا۔
اسلام آباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا ہے کہ اگر ہمیشہ کل کے فائدے کی بات کرتے رہے تو فائدہ نہیں، پاکستان اتنی برآمدات نہیں کرسکتا کہ درآمدات کی رقم ادا کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے تین بنیادی مسائل ہیں، ہمیں پاکستان ایسے مریض کی طرح ملا تھا جو آئی سی یو میں تھا اور اسے کم سے کم وارڈ میں لانا تھا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 60ء کی دہائی میں عالمی بینک نے لکھا کہ پاکستان ترقی کی مثال ہے، حکومت ِ پاکستان حکومتی امور، دفاع اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے قرض نہیں لے رہی، اس وقت پاکستان سود ادا کرنے کے لیے قرضے لے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 800 ارب روپے سے زائد کے قرضے سود کی ادائیگی کیلئے لیے گئے، 2003ء میں پاکستان کی معیشت کے حجم کا ساڑھے 13فیصد برآمدات تھی، گزشتہ سال معیشت کے حجم کا 8 فیصد پاکستان کی برآمدات تھی، برآمدات میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی ہوئی۔
اسد عمر نے کہا کہ بنگلادیش کی برآمدات 15 فیصد، بھارت کی 19 فیصد، ترکی کی 25 فیصد اور ویت نام کی 102 فیصد ہے، ٹیکس ادائیگی کے لیے آسانی پیدا کی جانی چاہیے، اتنے سوال تو بیٹی کے رشتے کے وقت نہیں پوچھے جاتے جتنے ٹیکس ادائیگی کے وقت پوچھے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وزارتِ خزانہ اور کابینہ کے ہاتھ باندھے ہیں، بجٹ سے متعلق کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنا ہے تو پارلیمنٹ جانا ہو گا، جعلی خبریں لگا لگا کر عوام کو ڈالر خریدنے پر لگایا جا رہا ہے، مصنوعی طور پر روپے کو طاقت دے کر پچھلے 30سال معیشت کا بہت نقصان کیا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ 2016ء سے 2018ء دیکھیں تو روپیہ طاقت ور اور موجودہ حالت میں کمزور نظر آرہا ہے، روپے کی قدر معیشت کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ سیاسی نعروں پر، پاکستان کی آبادی کا بہت بڑا حصہ کنونشنل بینکنگ کو نہیں مانتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جب تک عالمی برادری کی معیشت کا حصہ نہیں بنے گا، تب تک معاشی ترقی امیدوں کے مطابق نہیں ملے گی۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ امریکا میں افغانستان اور تاجکستان کے وزرائے خزانہ کے ساتھ ملاقات ہو گی، بھارتی حکومت پاکستان دشمنی کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہے، شاید انتخابات کے بعد بھارت میں بہتری نظر آئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کی ضرورت ہے جس میں مسئلہ کشمیر اور غربت جیسے مسائل پر بات ہو۔بشکریہ روزنامہ جنگ