پنجاب میں حکومت سازی کے لیے اختلافات بھلا کر سخت سیاسی حریف شیر و شکر ہونے کو تیار ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ بدھ کے روز ہونے والے عام انتخابات کےنتیجے میں غیر معمولی نتائج کا سامنے آنا ہے۔صوبائی حکومت کی مضبوطی کا انحصار ق لیگ اور پیپلز پارٹی پر ہوگا ، جن کے پنجاب اسمبلی میں مشترکہ طورپر 15ارکان ہیں۔یہ آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر ن لیگ یا پی ٹی آئی کو پنجاب کی اکثریتی جماعت بنا سکتے ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے ق لیگ سے تعلق رکھنے والے گجرات کے چوہدریوں نے ہر موقع پر شریف برادران پر تنقید اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے اور یہی ان کا سب سے بڑا نعرہ ہے۔تاہم شریف برادران نے ہمیشہ ہی انہیں نظر انداز کیا ہے۔لیکن اس مرتبہ ن لیگ نے پنجاب حکومت کے قیام کے حوالے سے پرویز الہٰی سے رابطہ کیا ہے مگر شاید وہ اس مرتبہ ان سے اتحاد نہ کریں کیوں کہ وہ بذات خود وزیر اعلیٰ کا عہدہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔وہ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرکے مرکز میں نائب وزیر اعظم یا پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرنے کے خواہاں ہوں گے۔شاید ہی کوئی معجزہ ہوگا جو ق لیگ ، پی ٹی آئی کی حمایت نہ کرے۔اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ ن لیگ انہیں وزیر اعلیٰ کے عہدے کی پیش کش کرے۔یہ حقیقت ہے کہ ق لیگ کا پی ٹی آئی کے ساتھ غیر اعلانیہ سمجھوتہ ہے، اسی وجہ سے پی ٹی آئی نےوفاق اور پنجاب کے کم از کم 20حلقوں میں امیدوار میدان میں نہیں اتارے تھے۔ان میں سے تقریباًدرجن بھر قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیں ق لیگ نے جیتیں۔لیکن الیکشن کے بعد کی صورتحال ، جس میں عددی کھیل بہت قریبی ہے، پرویز الہیٰ کا ماننا ہے کہ وہ صوبائی اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں ، جس کی وجہ ان کی سیاسی مہارت ہے ، یہاں تک کہ وہ ن لیگ میں بھی جگہ بناسکتے ہیں۔اس بات کا مظاہرہ پرویز الہیٰ نے منڈی بہاالدین سے منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلی کے آزاد امیدوار کو اپنے ساتھ ملا کر کیا ہے۔جب کہ سب جانتے ہیں کہ ہر آزاد امیدوار ہر جماعت خصوصاً ن لیگ اور پی ٹی آئی کے لیے اہمیت کاحامل ہے۔جہانگیر ترین کی کوششوں کے باعث صوبائی اسمبلی کے چھ آزاد ارکان پی ٹی آئی سے مل چکے ہیں۔جب کہ دوسری جانب رپورٹس آرہی ہیں کہ 9آزاد امیدوار ن لیگ سے رابطے میں ہیں اور وہ وزیر اعلیٰ کے الیکشن کے لیے ان سے اتحاد کرنے کو تیار ہیں۔پنجاب میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔جب کہ پی ٹی آئی بھی پیپلز پارٹی سے رابطہ کرتی نظر نہیں آرہی، کیوں کہ اسے پیپلز پارٹی کے ردعمل کا علم ہے۔تاہم ، ن لیگ نے پیپلز پارٹی سے رحیم یار خان کے مخدوم احمد محمود کے ذریعے رابطہ کیا ہے ، جن کے پاس خود 2صوبائی سیٹیں ہیں۔مخدوم احمد محمود کے ساتھ شریف برادران کے پرانے تعلقات ہیں ۔جب کہ جہانگیر ترین کے ساتھ ان کے قریبی کاروباری تعلقات کے باوجود کئی عرصے سے تعلقات بہتر نہیں ہیں۔جہانگیر ترین پہلے رحیم یار خان سے ہی انتخابات میں حصہ لیتے تھے ، تاہم پھر وہ لودھراں منتقل ہوگئے۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے طویل عرصے سے تعلقات کشیدہ ہیں لیکن ان تمام معاملات کے باوجود ن لیگ مخدوم احمد محمود کے ذریعے پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ان رابطوں سے یہ بات واضح ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔اس میں ہر چیز ممکن ہے۔تلخ تعلقات کے باوجود ن لیگ اور پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں بطور حزب اختلاف مل جل کر کام کریں گی۔یہ دونوں شاید مشترکہ اپوزیشن گروپ نہ بنائیں تاہم ایک دوسرے کے ساتھ مسائل کی نوعیت کے حوالے سے تعاون کریں گی۔25جولائی کے انتخابات سے بہت پہلے یہ پیشن گوئی کردی گئی تھی کہ آزاد امیدواروں کا کردار بہت اہم ہوگا گو کہ خیبر پختونخوا اور سندھ کے حوالے سے یہ پیشن گوئی درست ثابت نہیں ہوئی کیوں کہ یہاں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔تاہم وفاق اور پنجاب میں آزاد امیدواروں کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے۔بشکریہ روزنامہ جنگ