سینٹ کی ووٹنگ جاری

0
470


پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی نصف نشستوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد 52 سینیٹرز کو منتخب کرنے کے لیے رائے شماری جاری ہے۔
اس سلسلے میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹنگ سنیچر کی صبح نو نجے شروع ہوئی جو شام چار بجے تک جاری رہے گی۔
سینیٹ کی مجموعی 104 نشستوں میں سے 52 اراکین کی مدت مارچ میں مکمل ہو گئی تھی۔ جس کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول جاری کیا تھا۔
سینٹ کی 52 نشستوں کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، چاروں صوبوں اور فاٹا سے مجموعی طور پر 133 امیدوار میدان میں ہیں۔
انتخابات میں چاروں صوبوں سے 46 جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دو اور فاٹا سے چار سینیٹرز منتخب ہوں گے۔
اس دفعہ سینیٹ کے الیکشن اس لیے بھی بہت اہم ہیں کہ ان انتخابات کے بعد اس ایوان میں پارٹی پوزیشن یکسر بدل جائے گی۔
گو کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو پارٹی کی صدرارت کے لیے بھی نااہل قرار دیا گیا جس کے بعد مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار ہے کیونکہ اب اس کے امیدوار پارٹی کے بجائے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔
لیکن اب بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ قومی اسبملی میں اکثریت رکھنے والی جماعت مسلم لیگ ن سینیٹ میں بھی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئے۔ سینیٹ کے 52 نئے اراکین کو منتخب کرنے کے لیے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹ دیتے ہیں۔ ان سینیٹرز کو منتخب کرنے کے لیے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ شروع ہو گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ کا عمل شام چار بجے تک جاری رہے گا۔
سینیٹ میں پنجاب کی 12 نشستوں میں سے سات جنرل نشستیں، دو خواتین کی مخصوص نشستیں، دو ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتتی نشست پر انتخاب ہو رہا ہے۔ پنجاب سے ان 12 نشستوں پر الیکشن کے لیے 20 امیدوار آمنے سامنے ہیں۔
سندھ سے سینیٹ کی 12 نشستوں پر انتخابات میں 33 امیدوار مدِ مقابل ہیں جبکہ خیر پختوانخوا سے 11 نشستوں پر 26 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے۔
بلوچستان سے سینیٹ کی 11 نسشتوں کے لیے 25 امیدوار جبکہ فاٹا کی چار نشستوں پر 24 امیدوار مدِ مقابل ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی دو نشستوں پر الیکشن ہو رہے ہیں سینیٹ میں نئے اور پرانے چہرے
سینیٹ کے ان اتخابات کے بعد پاکستانی سیاست کے بعض بڑے نام پارلیمانی سیاست سے باہر ہو جائیں گے اور بہت سے نئے چہرے بھی سینیٹ میں سامنے آئیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر ترین رہنما اعتزاز احسن، فرحت اللہ بابر، تاج حیدر، عوامی نشینل پارٹی سندھ کے رہنما شاہی سید اور الیاس بلور بھی سینیٹ کے رکن نہیں رہیں گے۔
ان انتخابات کے بعد سینیٹ میں بعض نئے چہرے بھی دکھائی دیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے تھر کے ایک ہندو متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن کرشنا کماری کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا ہے۔
دوسری جانب ن لیگ نے سندھ پولیس کے سابق سربراہ اور کئی حوالوں سے متنازع شخصیت رانا مقبول اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بہن سعدیہ عباسی کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تھا لیکن اب عدالت کے فیصلے کے بعد اب وہ آزآد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔
تحریک انصاف نے بھی اس بار کچھ نئے لوگوں کو پارلیمان کا رکن بنانے کا فیصلہ کیا ہے جن میں فیصل جاوید بھی شامل ہیں۔
سینیٹ انتخابات اور پارٹی پوزیشن
اس وقت سینیٹ میں پیپلز پارٹی ایک بڑی سیاسی طاقت ہے جس کے ارکان کی تعداد 25 ہے۔ ان میں سے 18 ارکان ریٹائر ہو جائیں گے جن کی جگہ پیپلز پارٹی صوبائی اور قومی اسمبلی میں اپنے ووٹ کے ذریعے نو ارکان دوبارہ منتخب کروانے کی پوزیشن میں ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی اکثریت کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ ن لیگ کے اس وقت سینیٹ میں 26 ارکان موجود ہیں۔ ان میں سے نو ریٹائر ہو رہے ہیں لیکن صوبوں اور وفاق میں اپنے ارکان اسمبلی کے باعث یہ جماعت 15 کے قریب نئے سینیٹرز منتخب کروا سکتی ہے۔
یوں تین مارچ کے بعد مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 33 تک ہو سکتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد کم ہو کر 17 ہونے کا امکان ہے۔ اس پارٹی پوزیشن کو سمجھنے کے لیے ایک اور بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ بلوچستان کی صورت حال پییچدہ ہونے کے سبب نمبرز میں تھوڑی بہت تبدیلی ممکن ہے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن میں بغاوت ہو چکی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ ن لیگ کے بعض ارکان اپنی جماعت کے نامزد امیدوار کو ووٹ نہ دیں۔ شکریہ بی بی سی اردو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here