مشال خان قتل کے اہم ملزم عارف خان عدالت میں پیش

0
761


مشال خان قتل کے اہم ملزم عارف خان کو جمعے کے روز عدالت میں پیش کیا گیا ہے جہاں انھیں تین روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے عارف خان کو آج پولیس کی بھاری سکیورٹی میں بکتر بند گاڑی میں مردان کی کچہری لایا گیا جہاں انھیں سیشن کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
سیشن جج عبدالرؤف نے عارف خان کو تین روزۃ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ پولیس کی کوشش تھی کہ انھیں دس روز کا ریمانڈ دیا جائے۔
عارف خان کو سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا جہاں صحافیوں کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔
پولیس اہلکاروں نے بی بی سی کے نامہ نگار عزیز اللہ خان کو بتایا کہ عارف خان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنا تھا لیکن انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج رخصت پر تھے اس لیے ملزم کو سیشن کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
مردان کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس عالم شنواری نے بی بی سی کو بتایا کہ عارف خان کو گذشتہ روز مردان کے نواحی علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہاں ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ عارف خان نے خود اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بعض اوقات ملزم کی گرفتاری کے لیے پولیس ایسی حکمت عملی اختیار کرتی ہے اور ایسا دباؤ ڈالا جاتا ہے جس سے ملزم گرفتاری دے دیتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ عارف خان مشال خان قتل کے بعد جب پولیس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کیں تو وہ سڑک کے راستے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ محمد عارف ایران کے راستے ترکی چلے گئے تھے جہاں وہ دس ماہ تک روپوش رہے۔
عارف خان کے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر مردان میں کونسلر کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے لیکن نومبر میں الیکشن کمیشن نے مخالف امیدوار کی درخواست کے بعد دوبارہ گنتی کی تھی جس میں عارف خان کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن منسوخ کر کے مخالف امیدوار کا کامیاب قرار دیا گیا تھا۔
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ صحافت کے طالبعلم مشال خان کو گذشتہ سال اپریل میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج وائرل ہونے کے بعد پولیس نے گرفتاریاں شروع کیں جس میں 61 افراد کو نامزد کیا گیا تھا۔ ان میں 57 افراد پہلے گرفتار تھے جن کے بارے میں عدالت نے فیصلے بھی کیے ہیں۔ عارف خان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ ایک ویڈیو میں عارف خان یہ کہہ رہے تھے اس کے بارے میں کوئی کسی کو نہیں بتائے گا۔
ان ویڈیوز میں پولیس اہلکار اور افسر بھی موجود تھے لیکن انھیں تحقیقات میں شامل نہیں کیا گیا۔ اس واقعے میں گرفتار افراد کے والدین کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں موجود پولیس اہلکاروں کو بھی تحقیقات میں شامل کیا جانا چاہیے تھا۔
عدالت نے ایک ملزم کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید اور 25 افراد کو تین سے چار سال جبکہ 26 افراد کو رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ رہائی پانے والے افراد کے اعزاز میں رشکئی انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کی طرف سے استقبال بھی کیا گیا تھا۔
اس فیصلے کے چند روز بعد پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد سرکٹ نے تین سے چار سال کی سزا پانے والے ملزمان کی ضمانتیں منظور کرتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
ادھر گذشتہ روز چارسدہ میں مشال قتل کیس میں رہانے والے افراد کو غازیان قرار دیا گیا ہے اور رہائی پانے والے ایک نوجوان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔
یہ جلسہ چارسدہ کے اہم چوک پر منعقد ہوا جس میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کے مقامی قائدین نے تقریریں کیں۔شکریہ بی بی سی اردو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here