جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جہاں ایک طرف حکومت کے خلاف آزادی مارچ کرنے اور دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے وہیں دوسری جانب مولانا کا آزادی مارچ روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے بھی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان اپنی پریس کانفرنسز میں واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کے پاس پلان بی اور پلان سی موجود ہے جس پر وقت آنے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ اس حوالے سے کالم نگار حیدر نقوی نے اپنے حالیہ کالم میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے احتجاجی مارچ کی کال دے رکھی ہے جس کے تحت 31 اکتوبر تک پورے ملک سے نکلنے والے یہ احتجاجی مارچ اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دیں گے اور وزیر اعظم عمران خان سے استعفے کا مطالبہ کریں گے۔ دوسری جانب حکومت نے اس احتجاج کو مکمل طور پر روکنے کا پلان بنا رکھا ہے تاہم حکومت فی الوقت مولانا کے پلان بی اورپلان سی سے واقف نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق مولانا کا پلان بی یہ ہوگا کہ اگر احتجاجی مارچ کے شرکاء کو گرفتار کیا گیا چاہے اُس میں جمعیت کی مرکزی قیادت ہی کیوں نہ شامل ہو ، تو مولانا فضل الرحمان کے کارکن ملک بھرمیں مرکزی شاہراہیں جام کردیں گے اور اس کا آغاز کراچی میں سہراب گوٹھ سے کریں گے جہاں سے پورے ملک کے لیے ٹریفک خصوصاً آئل ٹینکرز روانہ ہوتے ہیں۔ مولانا کے پلان بی کے مطابق مولانا فضل الرحمان آخر تک کہیں نظر نہیں آئیں گے اور 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں نمودار ہوں گے۔ اس سے پہلے تک وہ کارکنان سے بذریعہ فون و ویڈیو لنک رابطہ رکھیں گے۔ مولانا کے ساتھ کم از کم دس ہزار کارکنوں کا ایک مجمع ہو گا جن میں سے کئی مسلح بھی ہوسکتے ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے مولانا اپنی گرفتاری کو بچا نہ سکے تو پورے ملک میں جی ٹی روڈ کو جام کردیا جائے گا جسے این ایچ اے کی زبان میں این ایچ 5 کہا جاتا ہے اور اُس وقت تک خالی نہیں کیا جائے گا جب تک مولانا فضل الرحمان کو رہا نہیں کردیا جاتا۔ حیدر نقوی کا کہنا تھا کہ اگر مولانا کے قافلوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اسلام آباد پہنچنے دیا گیا تو مولانا فضل الرحمان پُرامن طریقے سے ڈی چوک پر براجمان ہوجائیں گے اور روزانہ وہاں تلاوت قران پاک و درس و تدریس کا مرکزی سلسلہ شروع ہوجائے گا اور روزانہ کی بنیاد پر عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر میڈیا نے اس احتجاج کا بلیک آؤٹ کیا تو سوشل میڈیا پر جمعیت کا چینل سب کچھ براہ راست دکھائے گا۔ اگر دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تو مولانا فضل الرحمان دوران احتجاج ہی ایسی کسی بھی جماعت سے اظہارِ لاتعلقی کردیں گے تاکہ وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کی صورت میں وہ جماعت فائدہ نہ حاصل کرسکے۔ حیدر نقوی نےکہا کہ اس وقت مولانا فضل الرحمان دراصل صرف احتجاجی مارچ پر توجہ نہیں دے رہے بلکہ اُن کی بہت بڑی ٹیم ہے جس میں پڑھے لکھے نوجوان شامل ہیں، سوشل میڈیا پر اس مارچ کی ترویج میں مصروف ہے اور اُن کے پاس کسی بھی بڑے ٹی وی چینل کے مقابلے کی ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال کرنے والے ہیں۔ مولانا کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان پر بیرون ملک سے بہت زیادہ اخلاقی دباؤ آسکتا ہے کہ اس احتجاج کو مؤخر کردیا جائے یا مکمل طور پر یکجہتی کشمیر مارچ میں بدل دیا جائے تاہم اس کا حتمی فیصلہ مولانا فضل الرحمان ہی کرسکتے ہیں جس کا زیادہ سے زیادہ دو چار دنوں تک پتہ چل جائے گا۔