نیشنل پریس کلب کے سامنے قبائلیوں کا دھرنا مختلف نوعیت کا ہے

0
714


اسلام آباد میں 2013 میں علامہ طاہرالقادری
کی قیادت میں ‘انقلاب دھرنے’ میں، میں نے 20 مختلف افراد سے پوچھا کہ وہ کون سا انقلاب لانے کے لیے جمع ہیں۔ پندرہ اس سے لاعلم تھے، جبکہ تین کو انقلاب کا مطلب نہیں پتہ تھا اور ایک خاتون مجھ ہی سے الجھ پڑیں کہ میں اس قسم کے ‘گمراہ کن’ سوال کیوں پوچھ رہی ہوں۔ تاہم دھرنا ختم ہونے کے بعد ان سب نے جشن منایا تھا کہ کوئی انقلاب آ گیا ہے۔
لیکن اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے قبائلیوں کا دھرنا مختلف نوعیت کا ہے۔ اس میں قبائلی علاقوں کے نوجوان، بزرگ، بچے سبھی شامل ہیں اور ماضی میں ہونے والے دیگر کئی دھرنوں کے برعکس یہاں لگ بھگ سبھی جانتے ہیں کہ آخر یہ دھرنا اور احتجاج ہو کیوں رہا ہے؟
یہ سینکڑوں افراد جمعرات کو ریلیوں کی شکل میں اسلام آباد پہنچے تھے۔ ان سب کا ایک ہی مطالبہ ہے ‘نقیب اللہ محسود کے قاتل ایس ایس پی راؤ انوار کو گرفتار کرو’ اور ‘خون کا بدلہ خون ہے’ پریس کلب کے سامنے میدان میں ایک خیمہ لگا ہے، جس میں قالین اور چٹائیاں بچھائی گئی ہیں۔ جگہ جگہ بینرز لگے ہیں، جن پر نقیب اللہ محسود کی تصاویر اور مبینہ قاتل کی گرفتاری اور سزا کے مطالبے درج ہیں۔
دھرنے کے شرکا سے بات کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل پر قبائلی علاقوں کی عوام میں کس قدر غم و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ کسی طور احتجاج ختم کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ شکریہ بی بی سی اردو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here