بارسلونا سے دہلی دروازے تک۔ تحریر شفقت علی رضا

0
792


طارق بن زیاد کی سر زمین’’ا سپین‘‘مسلمانوں کے جدید طرز حکومت اوراب ’’ روایتی فیسٹیولز ‘‘ کی وجہ سے دُنیا بھر میں شہرت کا حامل ملک ہے ۔سال کے بارہ مہینے ہسپانوی فیسٹیول اپنی رونقیں بحال رکھتے ہیں ، اِن فیسٹیولز میں مقامی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے باشندے کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں ۔ٹماٹروں کا میلہ ہو ، بچوں کے اُوپر سے چھلانگ لگانے کا مقابلہ ہو ، بل فائٹنگ ہو یا بل کے آگے بھاگنے کی روایت ،روشنیوں کا میلہ ہو یا مختلف شہروں میں آگ کی دیوی کو بھینٹ چڑھانے کے لئے آگ جلانے کا میلہ لگایا جائے سب بہت قابل دید ہوتا ہے ۔ ہسپانوی صوبے کاتالونیا میں بھی ایک روایتی میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں صدیوں پہلے بھی تعلیم کے حصول پر زور دیا جاتا تھا ۔اس میلے کا نام ’’ سانت جوردی فیسٹیول ‘‘ ہے ، اپریل میں منعقد کئے جانے والے اس میلے میں شامل خواتین و حضرات ایک دوسرے کو بڑے خوبصورت تحائف پیش کرتے ہیں ، مرد اپنی محبوبہ کو گلاب کا پھول جبکہ عورت اپنے محبوب کو کتاب کا تحفہ پیش کرتی ہے ۔ پھول پاکیزگی ، اپنائیت اور خوبصورتی کا نشان ہے جسے خواتین کو دے کر اُن کی خوبصورتی کا اظہار کیا جاتا ہے دوسری طرف عورت اپنے محبوب کو کتاب کا تحفہ دے کر باور کرانے کی کوشش کرتی ہے

کہ علم کا حصول کامیاب زندگی کے لئے کتنا ضروری ہے ۔ تعلیم اقوام کو تاریخ میں زندہ و جاوید رکھتی ہے اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ تعلیم جہاں اعلیٰ رُتبوں کے لئے ضروری ہے وہیں اس سے زندگی گزارنے کے رُموز سے آشنائی بھی حاصل ہوتی ہے ، تعلیم انسان سے انسانیت پنپتی اور ترقی کرتی ہے ، فرمایا گیا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے ۔ اس فرمان کے پیچھے علم کے حصول کو یقینی بنانے کا راز پنہاں ہے یعنی علم حاصل کرنے کے لئے اگر دور دراز علاقوں میں جانا پڑے تو بھی جانا چاہئے ۔اسپین سمیت یورپی ممالک میں تعلیم میں کامیابی کی شرح بہت اچھی ہے ، اُن ممالک میں بچوں کو 16سال کی عمر تک ہر حال میں تعلیم حاصل کرنا ہوتی ہے ،پل اور سڑکوں سے پہلے اسکول کی عمارت اور اُس عمارت میں تعلیم کی سہولتوں کے انبار لگائے جاتے ہیں ۔جاپان میں دیکھ لیں جہاں تعلیم میں کامیابی کی شرح 100فی صد ہے وہاں کے ایک گاؤں کے اُجڑے ہوئے اسٹیشن پر ایک ٹرین صرف اس لئے رکتی ہے کہ وہاں سے ایک بچی نے اسکول جانا ہوتا ہے اور جب تک وہ بچی اپنی تعلیم مکمل نہ کر لے وہ ٹرین اس ایک سواری کے لئے وہاں رُکتی رہے گی ، اسے کہتے ہیں تعلیم اور طالب علم کا احترام ،معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی نے اپنی ایک کتاب میں اندرون لاہور کی تنگ گلیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ وہاں سے ایک ہی وقت میں مرد اور عورت گزریں تو اُن کے درمیان صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے ، ہم بھی اتفاق سے اُن گلیوں کی سیر کو چل دیئے ، لیکن یہ بتا دیں کہ ہم اکیلے ہی گئے تھے ہمارے ساتھ کوئی تھا نہیں ۔ دہلی دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ہمیں انجمن تاجران کے صدر ملے انہوں نے بتایا کہ دہلی دروازے کی گلیوں کو ماڈل گلیاں بنانے کے لئے یہاں سیوریج ، بجلی اور پانی کے پائپ زیر زمین کر دیئے گئے ہیں ، صفائی کا انتظام بھی بہت اچھا تھا ، دہلی دروازے کی وجہ شہرت پوچھی تو ہمارے میزبانوں نے ہمیں بتایا کہ دہلی دروازہ لاہور سے اگر ناک کی سیدھ میں سفر کیا جائے تو یہ راستہ آپ کو دہلی شہر تک لے جاتا ہے۔ یہاں ہم نے پانچ سو سال پرانا شاہی حمام بھی دیکھا جسے دیکھ کر معلوم ہوا کہ پانچ سو سال پہلے بھی گرم اور ٹھنڈے پانی سے نہانے کا رواج تھا ،شاہی حمام کے اندر ایک ایسی جگہ بھی دیکھنے کو ملی جہاں ایک کونے میں ہلکی آواز میں اگر بات کی جائے تو دوسرا بندہ اُسے آرام سے سن لے ، ہمارے لئےیہ سب سے حیران کن بات تھی ، تحقیق کرنے پر پتا چلا کہ بادشاہ کی آمد پر ایک دوسرے کو فوری پیغام دینے کے لئے اِن جگہوں کا استعمال کیا جاتا تھا ۔پھر ہم نے اپنے میزبانوں کے ساتھ اندرون دہلی دروازہ کی تنگ گلیاں دیکھیں ۔ہم نے ماڈل گلیوں کی صفائی دیکھی ،دوبارہ سے مرمت کی گئی مسجد وزیر خان کا وزٹ کیا ،ان ماڈل گلیوں کو بنانے اوراندرون دہلی دروازے کے تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے پر ’’ والڈ سٹی لاہور ‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل کی کوششوں کو سراہا۔ اس موقع پر انجمن تاجران کے صدر نے بتایا کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن دہلی دروازے کے عین اُوپر بچیوں کے لئے بنائے گئے اسلامیہ گرلز ہائی اسکول کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جس کے لئے انہوں نے والڈسٹی کے ڈی جی کامران لاشاری سے کہا کہ اس اسکول میں اندرون شہر کی بچیاں پڑھتی ہیں اگر یہ اسکول ختم کر دیا گیا تو ان بچیوں کے لئے نزدیک ترین کوئی اورا سکول نہیں یہ بچیاں کہاں تعلیم حاصل کریں گی؟ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک میں تعلیم اور تعلیمی اداروں کے لئے سب سے پہلے کام کیا جاتا ہے اُن ممالک کی ہر حکومت سب سے زیادہ پالیسیاں تعلیم کے حوالے سے مرتب کرتی ہے ، لیکن پاکستان میں اسکول ختم کرنے کی روایت کیوں جنم لے رہی ہے؟اس کالم کے ذریعے ہم بھی ڈائریکٹر جنرل والڈ سٹی لاہورسے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ دہلی دروازے کے اُوپر موجود اسکول کو سہولتوںسے مزین کریں ناکہ اُسے وہاں سے ختم کیا جائے ۔ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے بچے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں پاکستان کو کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیںحصول تعلیم میں آسانی اور تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ نہایت ضروری امرہے ، ہمیں جاپان کی ایک طالبہ کے لئے ٹرین اسٹیشن کےہونے اورا سپین میں کتابوں کا تحفہ دے کر تعلیم کے حصول پر زور دینے کی روایت کی تقلید کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جو قومیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں وہ اپنے لئے بہتر راہبر تلاش کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہیں جس سے کرپشن سے پاک اور یکساں انصاف پر مبنی معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here