بلوچستان کا سُتک گین در،’نمروُد کا ٹھکانہ‘

0
1179

گوادر سے 150 کلومیٹر دور ایک جلا ہوا دروازہ موجود ہے جسے سُتک گین در کہتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دروازے کا لفظ علامتی طور پر راہداری کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو 3500 قبل مسیح میں مکران سے میسوپوٹیمیا تک جاتی تھی۔
سُتک گین در کے قریب رہنے والے داد رحیم یہاں 50 سال سے مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا پردادا اس جگہ کو نمروُد کا ٹھکانہ کہتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس جگہ کے مالک وہ خود ہیں اور اس کی رکھوالی بھی وہ خود ہی کرتے ہیں لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ ان کو وقت کے ساتھ ہوا۔
پانچ ہزار لوگوں کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ میرانی بازار کے نام سے مشہور ہے جو یونین کونسل سنتسر، تحصیل جیونی اور ضلع گوادر میں پڑتا ہے۔
انٹرایکٹِو بلوچستان کا قدیم ’نمروُد کا ٹھکانہ‘ آج کیسا دکھتا ہے ستکگیں در آج ایسا لگتا ہے آج کل کا منظر امریکن آرکیالوجسٹ جارج اے ڈیلس اور ڈاکٹر رفیق مغل کی 1950 کی کتاب ‘اے سرچ آف پیریڈائز’ سے لی گئی تصاویر 4 سے شروع ہونے والی ریاست اور سرمچاروں کے درمیان جنگ کی وجہ سے بہت سے لوگ یہاں سے باقی علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس جگہ کے بارے میں اس وقت یہ تاثر بنا کہ یہاں پر بھوت پریت ہیں اس لیے یہاں کوئی بھی زیادہ عرصے نہیں رہ پاتا۔
داد رحیم بتاتے ہیں کہ مختلف ادوار میں انگریز اور فرینچ مشن کی اس جگہ آمد اور کھدائی کے عمل سے علاقے کے لوگوں کو شبہ ہوا کہ شاید یہاں سونا ہے، لیکن وہ سونا ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔
’مجھے کئی بار کہا گیا کہ ہمارے ساتھ آؤ اور سونا تلاش کرنے میں مدد کرو لیکن میں فساد پیدا کرنے کے ڈر سے پیچھے ہٹ گیا اور شامل نہیں ہوا۔
تین سال پہلے لوگ کسی مولوی کے ہمراہ رات میں یہاں آئے۔ مولوی ازخود کچھ بڑبڑانے لگ گیا جس کی وجہ سے سب ڈر کر بھاگ گئے۔ اس کے بعد سے یہاں کوئی نہیں آیا ہے۔‘بھوت پریت کی کہانیوں کے برعکس، محقق اور لسبیلہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حمید بلوچ بتاتے ہیں کہ سُتک گین در کے لوگ دراصل آباد کار تھے جن کا کام صنعتی راہداری کی حفاظت کرنا تھا۔
اس جگہ پر تین ادوار میں تحقیق کی گئی ہے۔
1875 میں میجر موکلر نے مکران میں اپنی ایک مہم کے دوران سُتک گین در دریافت کیا۔ انھوں نے یہاں کے گھروں اور قلعوں کے بارے میں لکھا کہ یہ بالکل وادی سندھ کی تہذیب کے زمانے میں بنے گھروں کے طرز پر بنے ہیں۔
1930 میں سر اورل سٹین نے مکران کا دورہ کیا۔ لیکن ڈاکٹر حمید بلوچ کہتے ہیں کہ اورل کا طریقۂ کار غیر سائنسی تھا کیونکہ وہ صرف سالم حالت میں موجود چیزیں نکالتے اور آگے بڑھ جاتے جس وجہ سے یہاں پر موجود بہت سے آثار ضائع ہو گئے تھے۔ 0 میں امریکن آرکیالوجسٹ جارج اے ڈیلس اور ڈاکٹر رفیق مغل یہاں آئے۔ یہ اس دور کا سب سے تفصیلی جائزہ تھا جس کا تذکرہ ڈیلس نے اپنی کتاب ‘اے سرچ آف پیراڈائز’ میں کیا۔
ڈاکٹر حمید نے کہا کہ ’ان کو کہا گیا تھا کہ اگر آپ کو جنت دیکھنی ہے تو آپ مشرق کی طرف سفرکریں۔ ان کو جنت تو نہیں ملی لیکن سُتک گین در کے قریب موجود میسوپٹیمین زمانے میں بنی ہوئی قلعے کی دیوار ضرور مل گئی۔‘
پھر 1987 سے لے کر 2001 تک فرینچ اور اطالوی مشن نے مکران کا ایک طویل اور تفصیلی جائزہ لیا۔ ان کو وہاں مچھلی کی ہڈیاں ملیں جس سے انھوں یہ اخذ کیا کہ جن لوگوں کو یونانی ‘فش ایٹرز’ (مچھلی خور) کہتے تھے وہ چار ہزار سال سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔
تاہم جو سائنسی شواہد ملے ہیں وہ ساڑھے چار ہزار قبل کے ہیں۔
آج یہ جگہ اسی طرح موجود ہے لیکن یہاں سے بہت سا سامان اور آثار چوری ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر حمید کہتے ہیں پاکستان میں آرکیالوجی کو وہ اہمیت حاصل نہیں جس کی وہ مستحق ہے۔شکریہ بی بی سی ادرو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here