سچ لکھنے کی سزا ملی اور یہ ایک معجزہ ہے کہ میں آج زندہ ہوں۔‘

0
941


پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں حال ہی میں رہائی پانے والے 27 سالہ صحافی حسنین رضا کا کہنا ہے ’مجھے قید کے دوران مختلف طریقوں سے ہراساں کیا گیا تاکہ میں معافی نامے پر دستخط کر کے صحافت کو خیرباد کہہ دوں۔ نہ تو میرے والد نے ایسا کیا اور نہ ہی میں ایسا کروں گا۔ مجھے سچ لکھنے کی سزا ملی اور یہ ایک معجزہ ہے کہ میں آج زندہ ہوں۔‘
عالمی آزادیِ صحافت کے دن کے حوالے سے حسنین رضا نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی گرفتاری اور رہائی کی تفصیلات بیان کیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جہاں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صحافیوں کو ہر وقت جان کا خطرہ لاحق رہتا ہے وہیں پنجاب اور سندھ میں کئی صحافیوں کو اپنے فرائض انجام دینے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’بڑے شہر میں رپورٹنگ کرنا آسان ہے۔ علاقائی رپورٹنگ قدرے مشکل ہے۔ ہم صحافیوں میں بھی طبقات ہیں اور علاقائی رپورٹر چھوٹے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، میری جگہ اگر کوئی شہر کا رپورٹر ہوتا تو 23 ماہ قید میں نہ گزارتا حسنین اوکاڑہ کے ان چند صحافیوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے پنجاب کے مزارعین اور فوج کے درمیان ہونے والے تنازعے پر متواتر رپورٹنگ کی جس کی ان کے ادارے نوائے وقت نے بھی حمایت کی لیکن اس کے نتیجے میں سکیورٹی حکام کی طرف سے مسلسل دھمکیاں اور ہراساں کیے جانے پر 24 اپریل سنہ 2016 کو حسنین نے خود گرفتاری دے دی۔
گرفتار ہوتے ہی حسنین پر 12 مقدمات درج کیے گئے جن میں سے زیادہ تر دہشت گردی سے منسلک ہیں۔ حسنین ان میں سے آٹھ مقدمات میں بری ہوچکے ہیں جبکہ باقی چار مقدمات کی سماعت دہشت گردی کی عدالت میں جاری ہے۔ جس دن میں ان سے انٹرویو کرنے گئی اس دن بھی ان کے وکیل ایک اور مقدمے کی سماعت کا فیصلہ سننے کے لیے ساہیوال گئے ہوئے تھے۔حسنین نے کہا کہ ان کی جان کو اب بھی خطرہ ہے۔’ قید سے باہر آ کر کچھ باتیں واضح ہوئیں جن میں سے ایک بات میں پہلے سے جانتا تھا کہ یہاں صحافی کم اور مخبر زیادہ ہیں۔‘
دورانِ قید انھیں آٹھ فٹ کے کمرے میں رکھا گیا اور ساتھ ہی ایک اہلکار بھی کھڑا کر دیا جو انھیں بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ ’مجھے بلاک نمبر سات میں رکھا گیا تھا جو سزائے موت کے قیدیوں کے لیے ہوتی ہے۔ کھانے کے نام پر مرچوں کا سالن اور سخت گرمیوں میں گرم پانی دیا جاتا تھا۔ سردیوں میں پتلا کمبل یا چادر دی جاتی تھی یا پھر میرے منہ پر کالا کپڑا ڈال کر کہا جاتا تھا کہ مختلف جانوروں کی آوازیں نکالو۔‘
قید کے دوران انھیں پتہ چلا کہ ان کے بھائی کو میونسپل کے محکمے سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا ہے کہ ’اس کی وجہ سے ہمارے لیے مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔‘
حسنین کی دو بہنیں محکمۂ تعلیم میں ملازمت کرتی ہیں انھیں بھی مسلسل ہراساں کیا گیا، لعن طعن کی گئی اور بات یہاں تک آ گئی کہ انھوں نے محکمہ چھوڑنے کے بارے میں بھی سوچا لیکن ان کی والدہ نے ایسا نہ کرنے دیاـ
حسنین کے گھروالوں کے لیے یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب گھر کے کسی فرد کو پنجاب کے مزارعین تنازع پر لکھنے کی سزا مل رہی تھی۔
سنہ 2002 میں جب مزارعین اور فوج کا تنازع شروع ہوا تب حسنین کے والد محمد سرور مجاہد نوائے وقت کے نامہ نگار تھے۔ اسی معاملے پر رپورٹنگ کرنے پر ان کو سنہ 2004، 2006 اور 2007 میں گرفتار کیا گیاـ
حسنین نے بتایا ’میرے والد کو سنہ 2007 میں جیل کاٹنے کے دوران ذیابیطس ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ان کی بائیں ٹانگ کاٹنی پڑی۔ سنہ 2011 میں مزارعین کے ایک جلسے کے دوران ان کو دل کی تکلیف ہوئی جس سے ان کا وہیں انتقال ہو گیا۔ تب نوائے وقت نے انھیں اپنے والد کی جگہ رپورٹنگ کرنے کی پیشکش کی۔‘
ان کے بقول ’اب پہلے جیسی صحافت نہیں رہی۔ صحافت کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں اپنے گھر اور گھر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ خود کی بھی حفاظت کرنی پڑتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر صحافی صحافت چھوڑ دے تو پھر کیا کرے؟‘شکریہ بی بی سی اردو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here