پاکستان میں ویسپا کے دیوانے آج بھی ہیں

0
667

پاکستان کی سڑکوں پر جہاں چینی ساخت کی سستی موٹر سائیکلوں کی بھر مار ہے وہیں نایاب ویسپا سکوٹر کے شوقین افراد کو اس کے پرزوں اور قدیمی ماڈلز حاصل کرنے کے لیے شدید دوڑ دھوپ کرنی پڑ رہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اطالوی کمپنی پیاجو کا سکوٹر 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستان میں سٹیٹس سمبل تھا جب سڑکوں پر سائیکلیں موٹر سائیکلوں سے کہیں زیادہ ہوتی تھیں اور لوگ یورپی اشیا کو خرید نہیں سکتے تھے۔
گذشتہ دہائیوں میں موٹر سائیکل کی خیداری بہت زیادہ بڑھی ہے اور چینی اور جاپانی ساخت کی موٹر سائیکلیں پاکستان کی سڑکوں پر عام نظر آتی ہیں۔زبیر احمد لاہور میں ویسپا کلب چلاتے ہیں اور ان کے لیے کم تیل کھانے والی موٹر سائیکلیں ان کو توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
زبیر کے والد نے 1974 میں ویسپا درآمد کی اور زبیر اب بھی وہی ویسپا چلاتے ہیں۔
’یہ پہلی موٹر سے چلنے والی گاڑی تھی جو میرے والد نے خریدی اور میں اس کو تب ہی سے پسند کرتا ہوں۔‘
بہت عرصے سے ویپسا کے مالکان کہتے ہیں کہ ویسپا کو رکھنا صرف شوقین ہی رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس کے سپیئر پارٹس نہیں ملتے اور گنے چنے مکینک ہی ہیں جو اس کا کام جانتے ہیں۔لاہور میں ویسپا رکھنے والے افراد کو اکثر انڈیا سے آنے والے کم کوالٹی کے پارٹس پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے یا پھر مکینیکوں کو از سر نو پارٹس بنانے کا کہنا پڑتا ہے۔فرخ شہباز کے والد کے پاس 1961 کا ویسپا تھا اور اب وہ ویسپا ان کے پاس گذشتہ 14 سالوں سے ہے۔ ان کو یہ ویسپا تین بار بنوانا پڑا لیکن اپنے والد کی نشانی سے جدا نہیں ہونا چاہتے۔
50 سالہ فرخ کہتے ہیں ’میرے والد نے مجھے بتایا تھا کہ یہ ویسپا ایک لکڑی کے ڈبے میں بند پاکستان آیا تھا۔‘پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں پر چند ہی مغربی سفارتکار ویسپا میں گھومتے نظر آتے ہیں۔
زبیر احمد کا کہنا ہے کہ اطالویوں نے ویسپا کی شکل میں دوسرا شاندار تحفہ دنیا کو دیا۔ پہلا تحفہ پیتزا ہے۔
زبیر اپنے ویسپا پر لاہور سے خنجراب تک کا سفر کر چکے ہیں۔ ’ویسپا نے کبھی بھی مجھے پایوس نہیں کیا۔‘شکریہ بی بی سی اردو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here