پولیس نے یتیم بچی کی رخصتی کروائی‘

0
1355


گذشتہ دنوں ضلع بہاولپور کی پولیس نے ڈاکوؤں سے مقابلے میں ہلاک ہونے والے کانسٹیبل کی بیٹی کی رخصتی کے اخراجات بطور پولیس فورس کے اٹھائے اور پولیس کے اس اقدام کو سوشل میڈیا پر کافی سراہا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب ہولیس کے کانسٹیبل محمد لطیف کی صاحبزادی کی شادی کی باری آئی تو وسائل کی کمی کی وجہ سے شادی کرنا محمد لطیف کی بیوہ کے لیے مشکل تھا۔
اس موقع پر مقامی پولیس کے ضلعی سربراہ مستنصر فیروز نے تمام ضلعے کی پولیس کی مدد سے اس شادی کے تمام انتظامات اپنے ذمے لیے۔
محمد لطیف بہاولپور کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک ڈکیتی کی واردت سے نمٹنے کے دوران اپنی جان سے گئے جس کے بعد ان کے لواحقین کو ان کی تنخواہ اور دوسرے الاؤنسز تو ملتے رہے مگر شادی کا خرچ ان کی بساط سے بہت بڑھ گیا تھا۔
محمد لطیف کی صاحبزادی تہمینہ لطیف کی شادی کی تقریب 17 مارچ کو بہاولپور میں انجام پائی جس میں ریجنل پولیس آفیسر بہاولپور سمیت ضلعے کی پولیس کے تمام اہلکاروں نے شرکت کی انہیں اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بہاولپور کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ‘ہم نے ضلعے کی سطح پر ایک ویلفیئر برانچ کا اجرا کیا ہے اور اس برانچ کے لوگ مسلسل لواحقین کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں تاکہ ان کے مسائل حل کر سکیں۔ محمد لطیف کی بیوہ نے اپنے مسائل کا جب تذکرہ کیا تو ہم نے مل کر ان کے خاندان کی مدد کا فیصلہ کیا۔’
سوشل میڈیا پر اس شادی کی خبر کو حکومتِ پنجاب کے ٹوئٹر اکاؤنٹ نے شیئر کیا جس پر بڑی تعداد میں لوگوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔
وقاص احمد نے لکھا ‘یہ بہت اچھی بات ہے۔ اس خاندان کے لوگوں کا خیال رکھنے قابلِ تحسین ہے۔ اپنے فرائض کی ادائیگی میں بھی اسی طرح بہتری لائیں۔’
’مراعات کو ایک جیسا کیا جائے تاکہ اس سلسلے میں جب ہم نے سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیا واقعی پولیس میں دوران ڈیوٹی جان دینے والوں کے لیے مراعات کم ہیں؟
شوکت جاوید نے اس کے جواب میں بتایا کہ ‘یہ تاثر غلط ہے کہ پنجاب پولیس میں مراعات کا پیکج کم ہے بلکہ میرے خیال میں یہ پاکستان میں بہترین پیکیج ہے۔ جس میں شہید ہونے والے کانسٹیبل کو ایک کروڑ روپے تک دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی بیوہ کو جب تک ان کی ساٹھ سال تک کی ملازمت پوری نہیں ہوتی تنخواہ اور اس کے بعد پینشن ملتی رہتی ہے۔ اس دوران وہ تمام مراعات حاصل کر سکتی ہیں۔ ان کے بچوں کی تمام تعلیم مفت ہوتی ہے۔ انہیں گھر دیا جاتا ہے۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر کیوں بعض ایسے کیسز سامنے آتے ہیں جن میں ایسی بیواؤں کے مسائل سامنے آتے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ ‘اس میں مقامی پولیس کمانڈروں یا انتظامیہ کی سستی ہوتی ہے ورنہ اب نظام میں ایسی مراعات موجود ہیں جن کے نتیجے میں لواحقین کے مسائل کو بہت بہتر طریقے سے حل کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔’
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی مختلف پولیس فورسز میں مراعات مختلف ہیں اور قومی سطح پر اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ مراعات کو ایک جیسا کیا جائے تاکہ وردی پہن کر ملک کے لیے جان دینے والوں کی عزت ملک بھر میں ایک جیسی ہو۔
پنجاب پولیس صحافی اور تجزیہ کار قطرینہ حسین نے کہا کہ ‘مراعات کاغذ پر تو موجود ہیں اور نظام بھی ہے مگر حقیقت میں کیا پولیس کے شہدا کے خاندان والے ان مراعات کو حاصل کر پاتے ہیں اور کیا وقت پر حاصل کر پاتے ہیں؟ اور ان مراعات کو حاصل کرنے کے لیے ان کا کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کے بارے میں بھی کچھ کیا جانا چاہیے۔’
انھوں نے کہا کہ ویلفیئر برانچ کا قیام قابلِ تحسین ہے مگر ایسے خاندانوں کو بیوروکریسی کے چکروں میں پھنسائے بغیر ان کی مدد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘اکثر میں نے سنا ہے سیاستدان کسی سانحے کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ اتنی مالی مدد کی جائے گی مگر اس کے حصول میں لوگوں کو مہینوں لگ جاتے ہیں جس کے سدِ باب کے لیے بھی نظام بنانے کی اشد ضرورت ہے۔’شکریہ بی بی سی اردو

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here