کیا صفر المظفر منحوس مہینہ ہے ؟ تحریر قاری محمد یاسر قادری

0
601

،

کیا صفر المظفر منحوس مہینہ ہے ؟ تحریر قاری محمد یاسر قادری
ماہِ صفر کو منحوس جاننا:
نُحوست کے وہمی تصورات کے شکار لوگ ماہِ صفر کو مصیبتوں اور آفتوں کے اُترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصاً اس کی ابتدائی تیرہ تاریخیں جنہیں’’تیرہ تیزی‘‘ کہا جاتا ہے بہت منحوس تصوُّر کی جاتی ہیں۔ وہمی لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ صفر کے مہینے میں نیا کاروبار شروع نہیں کرنا چاہیے نقصان کا خطرہ ہے، سفر کرنے سے بچنا چاہئے ایکسیڈنٹ کا اندیشہ ہے، شادیاں نہ کریں، بچیوں کی رخصتی نہ کریں گھر برباد ہونے کا امکان ہے، ایسے لوگ بڑا کاروباری لین دین نہیں کرتے، گھر سے باہر آمد و رفت میں کمی کر دیتے ہیں، اس گمان کے ساتھ کہ آفات ناز ل ہو رہی ہیں اپنے گھر کے ایک ایک برتن کو اور سامان کو خوب جھاڑتے ہیں، اسی طرح اگر کسی کے گھر میں اس ماہ میں میت ہو جائے تو اسے منحوس سمجھتے ہیں اور اگر اس گھرانے میں اپنے لڑکے یا لڑکی کی نسبت طے ہوئی ہو تو اس کو توڑ دیتے ہیں۔ تیرہ تیزی کے عنوان سے سفید چنے (کابلی چنے)کی نیاز بھی دی جاتی ہے۔ نیاز فاتحہ کرنا مُسْتَحَب و باعثِ ثواب ہے اور ہر طرح کے رزقِ حلال پر ہر ماہ کی ہر تاریخ کو دی جا سکتی ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اگر تیرہ تیزی کی فاتحہ نہ دی اور سفید چنے پکا کر تقسیم نہ کئے تو گھر کے کمانے والے افراد کا روزگار متاثر ہوگا، یہ بے بنیاد خیالات ہیں۔

عربوں میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھا جاتا تھا:
دورِ جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے )میں بھی ماہِ صفر کے بارے میں لوگ اسی قسم کے وہمی خیالات رکھا کرتے تھے کہ اس مہینے میں مصیبتیں اور آفتیں بہت ہوتی ہیں، چنانچہ وہ لوگ ماہِ صفر کے آنے کو منحوس خیال کیا کرتے تھے۔(عمدۃ القاری، ۷ / ۱۱۰مفہوماً)
عرب لوگ حُرمت کی وجہ سے تین ماہ، ذُوالقعدۃ، ذُوالحجہ اور مُحرَّم میں جنگ و جَدَل اور لُوٹ مار سے باز رہتے اور انتظار کرتے کہ یہ پابندیاں خَتْم ہوں تو وہ نکلیں اور لوٹ مار کریں لہٰذا صفر شروع ہوتے ہی وہ لوٹ مار، رہزنی اور جنگ و جدل کے ارادے سے جب گھروں سے نکلتے تو ان کے گھر خالی رہ جاتے، اسی وجہ سے کہا جاتا ہے: ’’ صَفَر الْمَکَان(مکان خالی ہو گیا)۔ جب عربوں نے دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوتے ہیں اور گھر برباد یا خالی ہو جاتے ہیں تو انہوں نے
اس سے یہ شگون لیا کہ یہ مہینہ ہمارے لئے منحوس ہے اور گھروں کی بربادی اور و یرانی کی اصل وجہ پر غور نہیں کیا، نہ اپنے عمل کی خرابی کا احساس کیا اور نہ ہی لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدال سے خود کو باز رکھا بلکہ اس مہینے کو ہی منحوس ٹھہرا دیا۔

صفر کچھ نہیں:
ہمارے مدنی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفر المظفر کے بارے میں وہمی خیالات کو باطِل قرار دیتے ہوئے فر مایا: ’’ لَاصَفَرَ ‘‘ صفر کچھ نہیں۔(بخاری،کتاب الطب، باب الجذام ۴/ ۲۴،حدیث: ۵۷۰۷)
محقق علی الاطلاق حضرت علامہ مولانا شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وَقْت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطِل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
(اشعۃ اللمعات (فارسی) ، ۳ / ۶۶۴)

صَدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ماہِ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں، خصوصاً ماہِ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس (یعنی نُحوست والی)مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ حدیث میں فرمایاکہ ’’صفر کوئی چیز نہیں‘‘ یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غَلَط ہے۔ اسی طرح ذیقعدہ کے مہینہ کو بھی بہت لوگ بُرا جانتے ہیں اور اس کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں یہ بھی غَلَط ہے اور ہر ماہ میں3 ، 13 ، 23 ، 8 ، 18 ،28(تاریخ) کو منحوس جانتے ہیں یہ بھی لَغْو(یعنی بے کار)بات ہے۔ (بہار شریعت، ۳ / ۶۵۹)

کوئی دن منحوس نہیں ہوتا:
علامہ سید محمد امین بن عمر بن عبد العزیز شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں: علامہ حامد آفندی رحمۃ اللہ علیہ سے سُوال کیا گیا: کیا بعض دن منحوس یا مبارک ہوتے ہیں جو سفر اور دیگر کام کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جو شخص یہ سُوال کرے کہ کیا بعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اِعراض کیا جائے اور اس کے فعل کو جہالت کہا جائے اور اس کی مذمت بیان کی جائے، ایسا سمجھنا یہود کا طریقہ ہے، مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرتے ہیں۔(تنقیح الفتاوی الحامدیہ ، ۲ / ۳۶۷)

کوئی وَقْت بَرَکت والا اور عظمت و فضیلت والا تو ہو سکتا ہے جیسے ماہِ رمضان، ربیع الاول، جمعۃ المبارک وغیرہ مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ مراٰۃُ المناجیح میں ہے: اسلام میں کوئی دن یا کوئی ساعت منحوس نہیں ہاں بعض دن بابرکت ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح ، ۵ / ۴۸۴)تفسیر رُوح البیان میں ہے: صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وَقْت کو منحوس سمجھنا دُرُست نہیں، تمام اوقات اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں۔ جس وَقْت میں بندۂ مومن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت وبندگی میں مشغول ہو وہ وَقْت مبارک ہے اور جس وَقْت میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرے وہ وَقْت اس کے لئے منحوس ہے۔ درحقیقت اصل نُحوست تو گناہوں میں ہے۔(تفسیر روح البیان ، ۳ / ۴۲۸)

ماہِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے جس طرح دوسرے مہینوں میں رب عَزَّوَجَلَّ کے فضل وکرم کی بارشیں ہوتی ہیں اس میں بھی ہو سکتی ہیں، اسے تو صَفَرُ الْمُظَفَّر کہا جاتا ہے یعنی کامیابی کا مہینہ، یہ کیونکر منحوس ہوسکتا ہے؟ اب اگر کوئی شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہا، نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا رہا تو یہ مہینہ یقیناً اس کے لئے مبارک ہے اور اگر کسی بَدکردار نے یہ مہینہ بھی گناہوں میں گزارا، جائز ناجائز اور حرام حلال کا خیال نہ رکھا تو اس کی بربادی کے لئے گناہوں کی نُحوست ہی کافی ہے۔ اب ماہِ صفر ہویا کسی بھی مہینے کا سیکنڈ ، منٹ یا گھنٹہ! اگر اُسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ اس کی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے۔

صفر المظفر کا آخری بدھ منانا:
صَدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ماہ صفر کا آخر چہار شنبہ(بُدھ) ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے، لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں، سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں، پُوریاں پکتی ہیں اور نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے اس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ ان دنوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرض شدت کے ساتھ تھا، وہ باتیں خلافِ واقع ہیں۔ اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں۔ (بہار شریعت، ۳ / ۶۵۹)

احمد رضا خان فاضل بریلوی کا فتویٰ
(احکام شریعت حصہ دوم صفحہ ١٩٣،١٩٤)​

مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس امر میں کہ ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ)کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرض سے صحت پائی تھی بنا بریں اس روز کھانا و شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور جنگل کو سیر کو جاتے ہیں۔۔۔۔
مختلف جگہوں میں مختلف معمولات ہیں کہیں اس روز کو نحس و نامبارک جان کر پرانے برتن گلی میں توڑ ڈالتے ہیں اور تعویذ و چھلہ چاندی اس روز کی صحت بخشی جناب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مریضوں کو استعمال کرواتے ہیں یہ جملہ امور شرع میں ثابت ہیں یا نہیں؟
اس کے جواب میں فرمایا آخری چہار شنبہ (بدھ) کی کوئی اصل نہیں نہ اس دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحت پانے کا کوئی ثبو ت ہے بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے اور اسے نحس سمجھ کر مٹی کے برتنوں کو توڑ دینا گناہ اور اضاعت مال ہے بہرحال یہ سب باتیں بالکل بے اصل اور بے معنی ہیں۔واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

جو مصیبت پہنچی شاہین مجھے میرے نفس سے پہنچی
اور جو بھلائی پہنچی مجھے میرے اللہ کی طرف سے پہنچی

* طالب دعا *
مرزا علی حیدر چشتی
مرزا شاہین جمیل جرال(قلعدار)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here