ہم زندہ پائندہ قوم ہیں تحریر شفقت علی رضا

0
964

دُنیا بھرمیں کھیلوں کے میدان وہاں کے باسیوں کے لئے جہاں بہترین تفریح کا ذریعہ ہیں وہاں وہ میدان صحت مندانہ معاشرے کی عکاسی بھی کرتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ جہاں میدان آباد ہوں وہاں کے اسپتال ویران ہوتے ہیں ۔کوئی بھی کھیل ہو وہ مثبت اور صحت مندانہ سرگرمیوں کی منہ بولتی تصویر ہوتا ہے ،جن ممالک میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کو سہولیات اور مراعات دی جاتی ہیں وہ ممالک بیشتر کھیلوں کے چیمپئن بنتے ہیں۔اسپین بہت سے کھیلوں میں مایہ ناز کھلاڑی پیدا کرنے والا ملک ہے ، فٹ بال کا ورلڈ چیمپئن ہونے کے ساتھ ساتھ باسکٹ بال کا فاتح بھی رہ چکا ہے ، رافیل نڈال کی صورت میں ٹینس کی فتوحات بھی اسپین کے پاس رہی ہیں ، کشتی رانی ، دوڑ ، لانگ جمپ اور ایسے کئی کھیل ہیں جن میں اسپین سبقت حاصل کرتا رہا ہے ،ا سپین یورپ کا کوئی امیر ملک نہیں بلکہ وہ بھی معاشی ابتری کا شکار ہے ، لیکن وہاں کی صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنے کھلاڑیوں کو معاشی ابتری میں مبتلا نہیں ہونے دیتیں ۔ اسپین کی فٹ بال کائونٹی اور فٹ بال ٹیموں نے دنیا بھر میں اس ملک کی پہچان کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔بارسلونا فٹ بال کلب اور ریال میڈرڈ دُنیا کے مشہور کلبوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ عوام الناس کی فٹ بال اور دوسرے کھیلوں کے کھلاڑیوں کی ایک جھلک دیکھنے میں جو دلچسپی نظر آتی ہے

وہ قابل دید ہے ۔یورپی ممالک کے لوگ اپنے کھلاڑیوں سے عشق کرتے ہیں ، انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ، اُن کے راستوں میں گل پاشی کرتے ہیں ، اُن کے ساتھ تصویر بنوانا ، آٹو گراف لینا اور قریب ہونے کے عمل کو کسی فتح سے کم نہیں سمجھا جاتا ، عوام الناس کی یہ محبت اسی لئے ہے کہ اُن ممالک کی حکومتیں کھیلوں اور کھلاڑیوں کے فروغ میں سب سے زیادہ متحرک ہیں ، چند دن پہلے پاکستان کے شہر کراچی کے اسپتال میں ہاکی کا ایک کھلاڑی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا جس سے گول کیپری کا ایک باب بند ہو گیا ۔مرحوم گول کیپر منصور احمد جس نے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں 1994کا ورلڈ ہاکی کپ جتوانے اور اسی سال لاہور میں چیمپئنز ٹرافی جتوانے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا ۔ہاکی فیڈریشن کی ستم ظریفی دیکھ لیں کہ کرکٹر شاہد خان آفریدی نے منصور کے علاج پرآنے والے اخراجات اُٹھانے کا اعلان کیا ،منصور عارضہ قلب میں مبتلا تھا ، ڈاکٹرز کے مطابق اگر منصور کے دِل کی پیوند کاری ہو جاتی تو شاید وہ بچ جاتا ، دل کی پیوند کاری ہندوستان میں کامیابی سے کی جاتی ہے ،مرحوم نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے انڈیا کی سر زمین پر متعدد میچ پاکستان کے لئے جیت کر یقیناً بھارتیوں کے دل توڑے ہوں گے لیکن اس مشکل وقت میں انہیں دِل کی ضرورت ہے لہٰذا انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مجھے ویزہ دیا جائے تاکہ انڈیا میں میرا علاج معالجہ ہو سکے ۔انڈیا کا ویزہ نہ ملا اور منصور جہان فانی سے کوچ کر گیا ۔ منصور کی وفات کی خبر نے جہاں اہل پاکستان کو رُلا دیا وہاں تارکین وطن بھی بہت افسردہ ہیں ، تارکین وطن پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ہم ہر سال اربوں روپوں کا زر مبادلہ بھیجتے ہیں کیا اُس سے پاکستان میں ایک ایسا اسپتال نہیں بنایا جا سکتا جہاں دِل کی پیوند کاری ہو سکے ،انڈیا ہم سے کہیں غریب ملک ہے لیکن وہ اپنے عوام کوعلاج معالجہ کی سہولیات دینا فرض سمجھتا ہے ، ہم لوگ انڈیا کے ساتھ اپنے ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کو ختم کرنے کا اعلان تو بہت جلد کر دیتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ بھارتی اسپتالوں میں جگر ، گردہ اور دل کی پیوند کاری کرانے کے لئے کتنے پاکستانی فیس جمع کروا کر لائنوں میں لگے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ، ہمیں بھارت سے تعلقات ختم کرنے چاہئیں لیکن جو لوگ موت کے منہ میں بیٹھے ہیں اُن کے علاج کے لئے ہمیں اسپتال بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔ہم ہمیشہ جنگ اور مارنے مرنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہم ایسی جنگ نہیں کرنا چاہتے جس میں ہماری ترقی کا اسلحہ استعمال ہو ، ہم تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی سے شناسائی کے ٹینکوں سے دشمن پر وار نہیں کرنا چاہتے ،ہم میدانوں کو آباد کرکے اسپتالوں کو ویران نہیں کرنا چاہتے ، ہم سفارش ، کرپشن اور لوٹ مار سے اپنے سسٹم کو چلانا چاہتے ہیں ، ہم رافیل نڈال ، لیونل میسی ، رونالڈو ، مائیک ٹائی سن ، زیڈان اور دوسرے ورلڈ کلاس کھلاڑیوں کو ملنے والے احترام کی تقلید نہیں کریں گے بلکہ ہم اس انتظار میں رہیں گے کہ کب کسی ماں کا کوئی منصور حالات کی ’’ سُولی ‘‘ پر لٹکے ۔ہمیں انڈیا کو شکست دینی ہے تو ترقی کرنا ہو گی ، ہمیں جدید ٹیکنالوجی سے روشناس ہونا ہوگا ۔ بچوں کو تعلیم یافتہ کرنا ہوگا۔ ہم کیسا انصاف کرتے ہیں کہ انڈین فلم مکمل دیکھ کر نعرہ بازی کرتے ہیں کہ اُس فلم میں پاکستان کے خلاف بات کی گئی ہے ، بھئی ہم انڈین فلم دیکھتے ہی کیوں ہیں ؟ آج ہم علاج معالجہ کے لئے انڈین حکومت کے سامنے ویزہ لینے کے لئے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں ہم اپنے ملک میں یہ سہولیات پیدا کیوں نہیں کرتے ؟ ہم انڈیا کو انسانی ہمدردی کا واسطہ دیتے ہیں ، اب بھلا انڈیا کو انسانی ہمدردی سے کیا لینا دینا ؟پاکستان میں بڑی بڑی سڑکیں ، لمبے لمبے پل اور گہرے گہرے انڈر پاسز کی ضرورت ہے لیکن طبی بنیادی سہولیات پہلے پاس ہونا اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔یورپی ممالک میں عوام کی طرف سے ہونے والے احتجاج ہم نے دیکھے ہیں وہ لوگ احتجاج کا راستہ متعین کرتے ہیں ، احتجاج میں کیا ہوگا اُس کا فیصلہ کیا جاتا ہے پھر وہ اجازت لیتے ہیں تب احتجاج کیا جاتا ہے ۔ٹریفک کے لئے متبادل راستے فراہم کئے جاتے ہیں ، احتجاج سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ اور وقت کو فلاں جگہ پر احتجاج ہو گا لہٰذا سب متبادل راستہ اختیار کریں ۔ لیکن پاکستان میں جس کا جہاں دل چاہے وہ احتجاج کرتا ہے ، ٹریفک بند ہو جاتا ہے ، ایمبولینس کو بھی راستہ نہیں ملتا ، کئی مریض اُس احتجاج کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں ۔ آئیں آج سب مل کر یہ فیصلہ کریں کہ ہم احتجاج نہیں بلکہ حکومتی ایوانوں تک یہ اپیل پہنچائیں کہ تعلیمی اور طبی فقدان کو دُور کیا جائے ، آئیں ہم حکومت سے مدد مانگیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے ، آگے بڑھیں احتجاج کے لئے نہیں بلکہ ترقی کے لئے ،آئیں اتنی ترقی کریں کہ پھر کوئی منصور ویزے کے لئے منت نہ کر ے ، آئیں جدیدیت کے ہراول دستے میں کھڑے ہو کر دُشمن ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے ہمیں کچھ نہیں چاہئے ۔آئیں زندہ اور پائندہ قوم بنیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here