چینی ٹیکنالوجی کمپنی ہواؤے سے متعلق گذشتہ روز سامنے آنے والے ایک نئے تنازع نے چینی جاسوسی، حساس اداروں کے اہلکاروں کی بھرتیاں اور دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانے کے ایک خفیہ پروگرام پر روشنی ڈالی ہے۔یہ پروگرام کتنا بڑا ہے اور اسے کون چلا رہا ہے؟
مبینہ طور پر برطانوی حساس ادارے ایم آئی سکس کے ایک سابق جاسوس کی مدد سے تیار کی گئی ایک دستاویز میں چین پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے سیاستدانوں سمیت اہم برطانوی شخصیات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی تاکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی مواصلاتی کمپنیوں میں سے ایک ہواؤے کے برطانیہ میں کاروبار کی حمایت کریں۔اس دستاویز میں چین کی بیرونِ ملک کام کرنے والی تمام بڑی کمپنیوں پر الزام ہے کہ ان سب کا ایک اندرونی ’سیل‘ یا یونٹ ہے جو کہ چین میں برسرِاقتدار پارٹی کو جوابدہ ہوتا ہے۔ یہ ’سیل‘ پارٹی کے سیاسی ایجنڈے کو پھیلانے میں کردار ادا کرتا ہے اور کمپنی کی جانب سے سیاسی احکامات کی پابندی کرنے کو بھی یقینی بناتا ہے۔اسی وجہ سے چین پر نظر رکھنے والے ماہرین کا اصرار ہے کہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی برطانیہ میں بھی فعال ہے اور یہ سب کاروبار کی آڑ میں ہو رہا ہے۔ ایک چینی ماہر کا کہنا ہے ’پارٹی کا اثر و رسوخ ہر جگہ ہے اور چین کے لیے کاروبار اور سیاست کو الگ رکھنا ممکن نہیں۔‘پارٹی کے نو کروڑ 30 لاکھ ارکان ہیں۔ ان میں سے کئی کو بیرونِ ملک کمپنیوں میں خفیہ طور پر ملازمت پر رکھوایا گیا ہے۔ ان کا کام ٹیکنالوجی کے شعبے بشمول ٹیلی کام کے شعبے سے حساس معلومات لینا ہے۔ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ ’ایجنٹ‘ اور غیر ملکی کمپنیوں میں اہم عہدوں پر موجود شخصیات مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے بھرتی کیے جاتے ہیں۔ہنی ٹریپ کا استعمال‘
سب سے پہلا طریقہ کسی شخص کو ’فوائد‘ کا جھانسہ دے کر ہدف بنانا ہے، خاص طور پر اگر وہ شخص چینی شہری نہ ہو تو۔
مغرب میں اس کے معنی چین میں کسی اہم اور پرکشش کاروباری سفر کی دعوت، مشکل میں گھری کمپنیوں کی مالی مدد یا پھر کسی بڑی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے عہدے پر فائز کروانا ہوتا ہے۔ بعض اوقعات لوگوں کو بھاری رقوم بھی دی جاتی ہیں جس سے ان کی زندگی بدل سکتی ہے۔اس طرح کے طریقے کار کا استعمال گذشتہ 10 سے 15 سال میں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور ان کا نشانہ طاقتور اور اہم شخصیات ہوتی ہیں۔تصویر کے کاپی رائٹ
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے اندر لوگوں کو بھرتی کرنے کے طریقہ کار اتنے پُرکشش نہیں۔ وہاں پر شخصیات کے خاندان کو ڈرانا دھمکانا، بلیک میل کرنا اور مغربی کاروباری شخصیات کے لیے ’ہنی ٹریپ‘ کا استعمال شامل ہے۔ہنی ٹرپ کا مطلب کسی بھی شخص کو کسی خوبصورت خاتون سے ’اتفاقاً‘ ملوانا ہوتا ہے۔ اس خاتون سے اس شخص کی ملاقاتوں کو خفیہ طریقے سے ریکارڈ کیا جاتا ہے اور پھر اس مواد کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔چین میں کام کر چکے ایک برطانوی تاجر کا کہنا ہے کہ چینی حکومت اپنے ملک میں ہنی ٹریپ کا طریقہ استعمال کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ ’یہ عام طور پر چین کی وزارتِ داخلی سلامتی کا کام ہوتا ہے۔‘اسے مرکزی طور پر نہیں چلایا جاتا، بلکہ یہ مختلف صوبوں کی سکیورٹی کی نگرانی کرنے والے بیوروز کا کام ہوتا ہے۔مثال کے طور پر شنگھائی میں موجود دفتر کی ذمہ داری امریکی شخصیات ہیں، بیجنگ دفتر روس اور سابق سوویت ممالک پر کام کرتا ہے، تیانجن بیورو جاپان اور کوریا کے لیے ذمہ دار ہے، وغیرہ وغیرہ۔اس سارے عمل سے واقف ایک شخص کا کہنا ہے کہ ’چینی حکومت ریاست کی بھرپور طاقت استعمال کرتے ہوئے معلومات حاصل کرتی ہے۔ اس میں وسیع پیمانے پر انٹرنیٹ پر جاسوسی کر کے معلومات حاصل کرنا اور انڈسٹری کے ماہرین کو ہدف بنانا ہوتا ہے۔‘’بعض اوقعات متاثرہ شخصیات کو اس بات کا علم ہوتا ہے لیکن کئی بار انھیں اس کا پتا نہیں ہوتا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’جاسوسی کے میدان میں روس کے ساتھ ساتھ چین بھی برطانیہ کے لیے بڑا خطرہ ہے۔‘بشکریہ بی سی اردو