آسٹریلوی سائنسداں آج خودکشی کر لیں گے

104 سالہ مشہور آسٹریلوی سائنسدان ڈاکٹر ڈیوڈ گوڈال خودکشی کرنے سوئزرلینڈ پہنچ گئے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے آج کے دن اپنی زندگی کاخاتمہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق مشہور آسٹریلوی ماہر نباتات و ماحولیات ڈاکٹر ڈیوڈ گوڈال آسٹریلیا سے سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل اس لیے پہنچے ہیں کیونکہ یہاں پر خودکشی میں مدد دی جاتی ہے۔

طبی امداد دے کر خودکشی میں ایسی مدد دینے کو یوتھنیزیا کہا جاتا ہے۔انہوں نے گزشتہ روز نیوز کانفرنس میں اس بات سے آگاہ کیا ۔صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موت کا وقت معین ہے مگر موت کو منتخب کرنے کے لئے انسان کو آزاد ہونا چاہئے۔ڈیوڈ گڈال کی نظر کمزور اور کان اونچا سنتے ہیں مگر ان کا ذہن اب بھی بیدار ہے۔ ایک ماہر نباتات کی حیثیت سے وہ دنیا بھر میں گھومتے اور گھر سے باہر جا کر تحقیق کرتے تھے لیکن اب وہ چلنے پھرنے کے لیے وھیل چیئر کے محتاج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ دس سال سے وہ زندگی کا لطف نہیں اٹھا رہے۔ان کا کہنا ہے کہ بیس سال پہلے جب ان کا ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کر دیا گیا تھا تو تب انھیں مر جانا چاہیے تھاچناچہ میں اب اپنی زندگی جاری نہیں رکھنا چاہتا آج مجھے اسے ختم کرنے کا موقع ملا ہے۔واضح رہے سوئزر لینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انتہائی علیل، ذہنی و جسمانی طور پر معذور طویل العمر اور لاغر بوڑھے افراد کو آسان موت یعنی رضاکارانہ موت فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی بے قرار اور تنگ زندگی کا خاتمہ آسانی سے کرسکیں۔

یورپی یونین کے ایک مشہور ملک سوئزرلینڈ میں1940 سے رضا کارانہ خودکشی کا یہ قانون نافذ ہے، یہاںقانونی طور پر اس بات کی اجازت دی گئی ہےکہ اگر کوئی شخص خود کشی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ۔سوئزرلینڈ میں ایسے کلینک بھی موجود ہیں جو کسی کو بھی اس کی مرضی اور رضامندی سے موت کی نیند سلانے کی سہولت فیس کے عوض فراہم کرتے ہیں۔اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آسٹریلوی سائنسدان مشہور ماہر نباتات اور ایکلوجسٹ ڈاکٹر ڈیوڈ گوڈال نےآج رضاکارانہ طور پر موت کو گلے لگانے کا اعلان چند روز قبل کیا تھا۔دوسری جانب آسٹریلیا میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا تاہم ریاست وکٹوریا کی پارلیمان نے گزشتہ برس اس طرح کا ایک قانون منظور کیا ہے جس پر اگلے برس جون تک عملدرآمد شروع ہوگا ۔ڈاکٹر گُوڈال نے آسٹریلیا کے سرکاری خبررساں ادارے کو اپنی ممکنہ موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ قطعی طور پر سوئٹزرلینڈ جانے کے خواہشمند نہیں ہیں تاہم آسٹریلین نظام میں رضاکارانہ طور پر موت اپنانے کی سہولت کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے انہیں آخری سفر کرنا پڑا اور وہ اگلے سال کا انتظار نہیں کر سکتے۔سوئزر لینڈ میں اس قسم کے کلینکس میں دو طرح موت کی نیند سلایا جاتا ہے۔ایک طریقہ موت کا انجیکشن لگانا ہے۔ اور دوسرا طریقہ زہر کا گھونٹ پینا ہے۔ان دونوں طریقوں میں بظاہر مرنے والے کو کوئی تکلیف ہوتی نظر نہیں آتی مثلا آدھا کپ ایک خاص قسم کا زہر خود کشی کرنے والے کو اس کی فیملی کی موجودگی اور ویڈیو کیمروں کے سامنے دیا جاتا ہے اور دینے سے قبل پوری طرح اس سے بیان حلفی لیا جاتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے اور خوشی سے خود کررہے ہیں آپ پر کسی کا کوئی دباو ٔنہیں ہے۔زہر کا گھونٹ پینے والا زہر کا پیالہ اپنے ہاتھ میں پکڑتا ہے اور پھر اپنی بیوی بچوں کی طرف دیکھتے ہوئی الوداعی ہاتھ ہلاتا یا بوسہ لیتا ہے اور پھر وہ زہر پی لیتا ہے۔ زہر کا پیالہ پینے کے فورا بعد بظاہر ایسا ہی لگتا ہے جیسے پانی کا گلاس پیا یعنی خود کشی کرنے والا بالکل نارمل ہوتا ہے۔پھر اسے ایک دو بسکٹ دیے جاتے ہیںاور پھر وہ باتیں کرتے کرتے آہستہ آہستہ غنودگی کی حالت میں چلا جاتا ہے اور سخت نیند آنی شروع ہوجاتی ہے، اور پھر بیٹھے بیٹھے آرام سے سو جاتا ہے، لیکن یہ نیند عام نیند نہیں ہوتی کہ جس کے بعد بیداری بھی ہو، بلکہ اسی نیند میں وہ مرجاتا ہے۔ڈاکٹر ڈیوڈگوڈال کو سوئٹرلینڈ کے ایٹرنل اسپرٹ کلینک میںآج ایک انجیکشن لگا کر یا زہر کا گھونٹ پی کر ابدی نیند سلایا جائے گا۔بشکریہ روزنامہ جنگ

Comments (0)
Add Comment