بسم اللہ سے لا الہ الا اللہ تک تحریر۔ محمد علی رضا

عموماً اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کااجلاس، سال میں ایک دفعہ، ماہ ستمبر کے تیسر ے منگل کو شروع ہوتا ہے تاہم اگر سلامتی کونسل چاہے یا اقوام متحدہ کے اراکین کی اکثریت ہوتو، جنرل اسمبلی کا خاص اجلاس، کسی اور وقت میں بھی بلایا جا سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں، اس سال کا جنرل اسمبلی کا اجلاس خصوصی اہمیت کا حامل تھاکیونکہ بھارتی حکومت کے زیر تسلط کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد، سخت کرفیو اور بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے باعث، مقبوضہ وادی کے باسیوں اور دونوں ممالک (پاک۔
بھارت) کی فیصلہ ساز قوتوں کو بھی، 27 ستمبر کو منعقدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تمام رکن ممالک کے راہنماؤں کو اظہار خیال کے لیے عموماًپندرہ (15) منٹ دیے جاتے ہیں، خطے میں کشیدگی کے باعث،بھارتی وزیر اعظم کا خطاب بھی اس اجلا س میں انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم ہو یا کوئی اور عالمی فورم،دنیا اسی کو مانتی ہے جو معاشی و دفاعی لحاظ سے مستحکم ہو، چونکہ بھارت رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے سات گنا بڑا اور معاشی لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی آبادی کی مارکیٹ ہے اس لیے عالمی بساط کے ماہرین، بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے ایک منطق و استدلال سے لبریز، واضح اور جارح موقف کے منتظر تھے۔
(جاری ہے)

ADVERTISING

inRead invented by Teads
شومئی قسمت! پاک بھارت، دونوں سربراہان مملکت کا ایک ہی دن خطاب! پھر شاید دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی او ر آخر کار! آ گیا وہ شاہکار، جس کا انتظار تھا۔
بھارتی وزیر اعظم کا وقت پہلے مقرر تھا۔ نریندر مودی صاحب اپنی ہندی بھاشا میں بولے، مقررہ وقت میں ہی اپنی بات سمیٹ لی۔ بھارتی عوام بھی منتظرتھی کہ آج پھرمودی جی کا جارحانہ انداز بیان جاری رہے گااور زبان و بیان کے وہ نشتر چلیں گے کہ آج ہی کشمیر کا فیصلہ اور مخالفوں کا صفایا ہو جائے گا۔
پر موددی صاحب، ڈرے ڈرے، سہمے سہمے بولے۔ بے جان،بیاثراور کھوکھلے الفاظ، پوری تقریر میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔ مقبوضہ وادی میں محاصرے کا کوئی بھی جواز پیش نہ کر سکے، 80 لاکھ سے زائد کشمیریوں کو تقریباً 2 ماہ تک کرفیو کے زور پر محصور رکھ کر، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے لیے، کوئی دلیل یا جواز نہ لا سکے۔
حالات کچھ ایسے بنے کہ جیسے ہی مودی کی تقریر کا آغاز ہوا، اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے، ہزاروں کشمیری، سکھ،پاکستانی اور تو اور خود بھارتی بھی، ان کے متعصبانہ رویہ پر، روبہ احتجاج تھے۔
عالمی میڈیا میں اثرو رسوخ، چانکیہ پالیسی، ہندوتوا، بھارتی بھاشا اور معاشی لابی کچھ بھی کام نہ دکھا سکی۔ ان کی تقریر کوئی بھی تاثر چھوڑے بغیر ختم ہوئی اور اسمبلی کے فلورز میں، کہیں بھی اس کی کئی توصیف نظر نہ آئی۔
اب جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم کو بھی خطاب کرنا تھا تو ناقدین میں شدید اضطراب تھا کہ نجانے آج خان صاحب کیا گل کھلائیں گے؟ نقادوں میں سراسمیگی تھی کہ کہں ا آج بھی خان صاحب فی البدیہہ نہ بول پڑیں اور اپنی زبان سے لڑکھڑانے یا اپنے مخصوص سیاسی انداز بیان کے سبب، اپنے ساتھ ملک و قوم کے لیے بھی،شرمندگی کا باعث نہ بن جائیں!
تجزیہ کاروں کی عمومی رائے یہی تھی کہ تقریر لکھی ہوئی ہو اور زبان و بیاں پر مکمل گرفت کے ساتھ حرف بحرف اسی کو پڑھ کے ”پرچی پالیسی ” کو ہی حق و غنیمت سمجھا جائے،لیکن! آخر کار وہی ہوا جس کا کچھ کچھ خدشہ تھا، عمران خان آئے، فی البدیہہ بولے، اور پھر 49 منٹ 41 سیکنڈ تک،شائستہ مگر دبنگ لہجے میں، بولتے ہی چلے گئے۔
زبان پھسلی نہ انگریزی زبان و بیاں میں کوئی جنبش، فی البدیہہ، بے تکان، منطق و استدلال کے ساتھ ”بسم اللہ ”سے آغاز، گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلیاں، منی لانڈرنگ، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، لاالہ اللہ کی تشریح ، کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی، اسلام، بین المذاہب، توہین رسالت مآب، فلسطین، امت مسلمہ اور اسلامی حمیت و غیرت کے ساتھ اختتام۔
کمال گرفت اور مہارت کے ساتھ، وسیلہ اظہار کیااور ناقدین کو کہنے پر مجبور کر دیا کہ فی البدیہہ اندازِ تخاطب میں، دل سے نکلنے والے الفاظ براہِ راست دل میں اثر کر جاتے ہیں۔ عالمی اور سیاسی سطح پر اس خطاب کے جو دیرپا اثرات ہوں گے وہ اپنی جگہ پر مگر مذہبی اور خصوصاً پوری امتِ مسلّمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے، اقوام متحدہ جیسے عالمی سطح کے فورم پر ”تحفظِ ناموسِ رسالت ”کی وکالت کر کے اور پھر اسلام کی واضح و جامع،تشریح و تعبیر کر کے،ایک مخلص اور محب اسلام ہونے کا حق ادا کر دیا۔
نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کی نما نئدگی کرتے ہوئے، مردہ عالمی ضمیر کو اس بات پر جھنجوڑا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے، اپنے نبیﷺ کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
شاید یہی، محبت رسول کریم ﷺ اور جذبہ ایمانی کا صدقہ تھاکہ جب عمران خان عالمی فورم پر سید الانبیاکے ناموس اور حرمت کی وکالت کر رہے تھے تو پوری امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ، جنرل اسمبلی اور اس کی گیلریوں میں مو جود اراکین، بے تحاشا داد و تسحین کا اظہار کر رہے تھے اور ترک صدر وارفتگی میں وزیر اعظم عمران خان کا ماتھا چومنے پر مجبور ہو گئے۔
بقول پیر نصیرالدین
تھی جس کے مقدر میں گدائی ترے در کی
قدرت نے اسے راہ دکھائی ترے در کی
ہیں عرض و سماوات تری ذات کا صدقہ
محتاج ہے یہ ساری خدائی ترے در کی
صد شکر کہ میں بھی ہوں ترے در کا
صد فخر کہ حاصل ہے گدائی ترے در کی

Comments (0)
Add Comment