بولنگ کا حساب دان حسن علی

فاسٹ بولر جب بال پھینک کر کریز سے پلٹتے ہیں تو عموماً سانس پھولا ہوتا ہے۔ چہرے پہ سنجیدگی ہوتی ہے یا پھر مایوسی، قدموں میں ایک خفیف سی تیزی ہوتی ہے، اوور ریٹ کا بھی خیال رکھنا ہے۔ جلدی سے بولنگ مارک تک پہنچنا ہے، فوری اگلا گیند پھینکنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن حسن علی جب بال پھینک کر کریز سے لوٹتے ہیں تو ان کی تیز چال میں بھی ایک عجیب طرح کا اطمینان ہوتا ہے۔ سر بلند ہوتا ہے، چہرے پہ سکون ہوتا ہے، ہاتھ بے اختیار بیٹسمین کی پچھلی شاٹ کی شیڈو پریکٹس کر رہے ہوتے ہیں اور دماغ ساتھ ہی ساتھ اگلی بال کی لینتھ اور لائن طے کر رہا ہوتا ہے۔

٭ تیسرا ون ڈے پاکستان کے نام، امام الحق کی سنچری

٭ آپ کی بیٹنگ کہاں کھو گئی جناب؟

اس سہل سی روانی میں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ کب بولنگ مارک سے اگلی گیند پھینکنے دوڑے اور کب کہاں سے کوئی گیند آ کر اندرونی کنارے پہ لگی اور سٹمپس سے ٹکرا گئی، اور جب حقیقت کو پلٹتے ہیں تو کسی مایوس بیٹسمین کا بلا اسی پوز میں لہرا رہا ہوتا ہے جس کی خیالی پریکٹس کچھ ہی لمحے پہلے حسن علی کے ہاتھ کر رہے تھے۔

حسن علی نے کل تیز ترین 50 وکٹوں کے لیے وقار یونس کا ریکارڈ توڑ دیا اور اگر ان کی بولنگ کی کاٹ کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ 24 نہیں، کم از کم سو ون ڈے میچوں کا تجربہ جھلک رہا ہے۔

حسن علی ماڈرن ون ڈے کرکٹ کے آئیڈیل بولر ہیں۔ یہ دور کہ ایک، ایک ڈاٹ بال کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، آپ حسن علی کے کریئر کے نمبرز دیکھیں تو تسلی بخش حیرت ہو گی۔ کیونکہ یہ اس ملک کے نوجوان فاسٹ بولر ہیں جہاں ڈیڑھ سال پہلے تک یہ بحث جاری تھی کہ کیا واقعی یہاں کرکٹ کا کوئی ٹیلنٹ باقی بھی ہے؟

ایسا کیا ہے جو حسن علی کی بولنگ کو اتنی تیزی سے نکھار رہا ہے؟

وہ فاسٹ بولر جن کے پاس ورائٹی بہت زیادہ ہو، وہ بیٹسمین کو ہر گیند پہ نئے طریقے سے آؤٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اِن سوئنگ سے بچ گیا تو آؤٹ سوئنگ، اگر اس سے بھی بچ نکلے تو سیدھی لائن میں یارکر۔ اس سے کہیں نہ کہیں رنز بھی بن جاتے ہیں اور بالآخر وکٹ بھی مل ہی جاتی ہے، لیکن حسن علی کو رنز بہت کم پڑتے ہیں اور وکٹیں زیادہ مل جاتی ہیں۔

کیونکہ حسن علی کی سوچ کا سفر کچھ مختلف ہے۔

وہ کوئی ایک پلان لے کر اپنا سپیل شروع نہیں کر دیتے، وہ ہر گیند کو اس لمحے کے اندر رہ کر سوچتے ہیں۔ پہلے وہ بیٹسمین کو اٹیک کرنے کے موڈ میں لاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اس کی فیورٹ لائن میں ایک اچھی لینتھ پھینکتے ہیں، اور اس کے بعد پھر وہ تکمیل کا لمحہ آتا ہے جب گیند کسی ریاضیاتی فارمولے کی طرح ایک مقررہ زاویے سے ایک خاص سمت میں جاتا ہے اور بلے کے اندرونی کنارے کو چھو کر سٹمپس سے ٹکرا جاتی ہے۔

اگر آپ حسن کی وکٹوں میں ان سائیڈ ایجز کو ہی دیکھیں تو ایک حیرت انگیز پرفیکشن دیکھنے کو ملے گی۔ چیمپیئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں اوئن مورگن کو پھینکا گیا وہ گیند اس پرفیکشن کی بہترین مثال ہے۔ فریم کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ بولر نے مورگن کے دماغ اور بازووں کی مکمل پیمائش لے کر ہوا میں خاکہ بنایا کہ اگر آف سٹمپ سے اتنے انچ باہر گیند اس زاویے پہ اچھلے تو بلے کا بیرونی کنارہ کہاں پہ ہو گا اور گیند کیسے کنارے کو چھو کر آگے نکل جائے گی۔

پاکستان کے لیے یہ امر باعث صد اطمینان ہے کہ ورلڈ کپ سے دو سال پہلے ہی اسے اپنا پرائم اٹیک بولر مل گیا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایک ہی سال میں اس نے وقار یونس کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا۔ دو سال اور گزر گئے تو سوچئے تجربے اور مہارت کا امتزاج کیا نہیں کر جائے گا۔

لیکن اس ساری کہانی کی روانی ایک نہایت اہم فیصلے سے وابستہ ہے۔ پاکستان کو جلد از جلد طے کرنا ہو گا کہ حسن علی کو خرچ کیسے کرنا ہے۔

ڈیل سٹین کی مثال لیجیئے۔ سٹین 85 ٹیسٹ کھیل چکے ہیں۔ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی وکٹوں کی تعداد 417 ہے، لیکن اگر آپ ون ڈے میں دیکھیں تو 13 سالہ کرئیر میں انھوں نے صرف 116 ون ڈے میچز کھیلے ہیں۔

انہی کی جگہ کوئی پاکستانی بولر 85 ٹیسٹ کھیل چکا ہوتا تو کم از کم تین سو ون ڈے بھی کھیل چکا ہوتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ سٹین ون ڈے میں اتنے کامیاب نہ رہے ہوں یا ڈراپ ہوئے ہوں۔ قریب ہر دور میں وہ ون ڈے سکواڈ کا حصہ رہے ہیں مگر بہت کم ایسا ہوا کہ انہیں سیریز کے ہر میچ میں کھلایا گیا ہو۔ اہم ترین میچز میں ان سے کام لے کر پھر انہیں باقاعدہ آرام بھی دیا جاتا رہا۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو حسن علی بھی اسی دوڑ کے گھوڑے ہیں اور پاکستان بھی ان سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے لیکن اگر یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ حسن علی کو خرچ کیسے کرنا ہے۔ انہیں کب اور کون سے فارمیٹ میں کھلانا ہے اور کہاں بینچ پہ بیٹھا کر ریلیکس کرنا ہے۔

#Source by BBC URDU

Comments (0)
Add Comment