منی لانڈرنگ کیلیے غیر متعلقہ اور محدود آمدن کے حامل کھاتے داروں کے اکائونٹس استعمال کیے جانے کے واقعات کے باعث جہاں انفرادی کھاتے داروں میں تشویش پھیل گئی ہے وہیں نوسر بازگروپ بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔
بینکنگ انڈسٹری ذرائع کے مطابق یومیہ بنیاد پردرجنوں افراد اس طرح کے فراڈ کا نشانہ بن رہے ہیں جس سے عوام کا بینکاری نظام پر سے اعتبار اٹھ رہا ہے۔ بینکاری فراڈ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود بینکوں اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے جس سے ملک میں مالیاتی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے کے قومی اہداف بھی متاثر ہورہے ہیں۔کھاتے داروں کو لوٹنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔ دھوکہ دہی کے بعض واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخصوص بینک کے کھاتے داروں کا ریکارڈ بھی نوسر بازوں کے ہاتھ چڑھ چکا ہے جس کے ذریعے شہریوں کو ان کی محنت کی کمائی سے محروم کیا جارہا ہے۔ بینک کھاتے داروں کو لوٹنے والے گروہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جو بڑے بینکوں کے کھاتے داروں کو فون کرکے ان کے کھاتوں سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔
کراچی کے ایک شہری نے بتایا کہ اسے 03174937288کے نمبر سے فون کیا گیا اور بینک کے نمائندہ ہونے کا تاثر دے کر اے ٹی ایم کارڈ کی خفیہ معلومات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ کال کرنے والے کا کہنا تھا کہ عام شہری کے اکائونٹ میں اربوں روپے کی رقم منتقل ہونے کے بعد تمام کھاتوں کی از سر نو تصدیق ہورہی ہے اس لیے اپنے بینک کا نام، برانچ اور شناختی کارڈ نمبر بمعہ ڈیبٹ کارڈ پن اور کوڈ بتائیں شہری نے جب استفسار کیا کہ کال بینک کی ہیلپ لائن کے بجائے نجی موبائل فون نمبر سے کیوں کی جارہی ہے تو خود کو بینک کا نمائندہ ظاہر کرنے والے افراد نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اس نمبر کے بارے میں پی ٹی اے اور موبائل کمپنی کی ہیلپ لائن سے بھی رجوع کرنے کی کوشش کی گئیں تاہم پی ٹی اے اور متعلقہ موبائل کمپنی بھی کوئی اقدام نہ کرسکی۔شہریوں کے مطابق موبائل فون کے ذریعے دھوکہ دہی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تاہم متعلقہ ریگولیٹری ادارے تماشائی بنے ہوئے ہیں اور شہری اپنی رقوم سے محروم ہورہے ہیں۔ آن لائن بینکنگ کرنیوالے بینک صارفین بھی نوسر بازوں کا آسان ہدف بنے ہوئے ہیں۔انٹرنیٹ بینک اکائونٹ بند ہونے کی اطلاع دے کر اسے بحال کرانے کے لیے ای میل میں درج لنک کو کلک کرنے کا کہا جاتا ہے اس طریقے سے کھاتے دار کو مچھلی کی طرح جال میں جکڑا جاتا ہے، کھاتے دار جیسے ہی لنک پر کلک کرتے ہیں ہوبہو بینک کی ویب سائٹ جیسی سائٹ کھل جاتی ہے اور کھاتے دار دھوکے میں آکر کوڈز داخل کرتا ہے جو فراڈ کرنے والے کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔اس طریقے کو فشنگ کا نام دیا جاتا ہے اور فشنگ کا شکار ہونے و الوں کو ان کے بینکوں کی جانب سے بھی کوئی معاوضہ نہیں ملتا اور تاحال تفتیشی ادارے بھی ایسے گروہ کے گرد دائرہ تنگ کرنے میں ناکام ہیں۔ اسلام آباد کے ایک شہری فرمان کشمیری بھی اسی طرز کے فراڈ کا شکار ہوئے جس میں انھیں فون کرنے والوںنے ایک بڑے بینک میں موجود ان کے اکائونٹ کی تمام تر تفصیلات بیان کیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق بینک یا اس کا کوئی نمائندہ کسی شہری کے کوائف مانگنے کا مجاز نہیں ہے کیونکہ بینکوں کے پاس اپنے کھاتے داروں کی تفصیلات پہلے ہی موجود ہوتی ہیں۔