تحریر: محمد علی رضا

قطرہ
تحریر: محمد علی رضا
آج کا سعودیہ بدل رہا ہے۔آئے روز نت نئے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جو کسی بڑی تبدیلی کا شاخسانہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ سعودیہ میں طرز حکومت بادشاہت پر مبنی ہے جس میں بادشاہ بلا شرکت غیرے اقتدار کا مالک ہوتا ہے ۔ انتظام و انصرام، نظم و ضبط اور حکومتی معاملات آل سعود یعنی شہزادوں کے اشتراک سے چلایا جاتاہے۔ سعودیہ میں کبھی بھی کوئی اہم تبدیلی فوری ،اچانک اور یکدم نہیں آتی بلکہ اس کے پیچھے کوئی واضح وجوہات ہوتی ہیں، جیسا کہ 70 کی دہائی میں تمام سعودی پالیسیاں تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذرائع پر بنائی جاتیں تھیں، اور جب 1979 ء میں عالمی حالات میں تبدیلی آئی جیسے ایران میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا، اسی طرح سوویت یونین، افغانستانستان میں یلغار ہوئی، ان لمحات میں کچھ درپردہ محرکات کی بناء پر سعودی پالیسیوں میں اہم ردو بدل ہوا اور 9/11 کے بعد کا سعودیہ کافی حد تک عالمی سامراجی نظام کے زورِ بازو اپنے شاہی معاملات چلاتا رہاہے۔
عالمی میڈیا سے دور رہنے والا سعودیہ آج عالمی میڈیا کی شاہ سرخی میں ہے، چاہے وہ کرپشن کے الزام میں گرفتار، شہزادوں کی گرفتاری ہو،یا روایتی طرز زندگی کے نظام سے جدیدیت اور روشن خیالی کی طرف گامزن شاہی خاندان کی پالیسیاں۔ ان واقعات کے تناظر میں یہ اہم سوال ابھرتا ہے کہ یہ سب اچانک کیسے ہو رہا ہے؟اگر حقائق کا ادراک باریک بینی سے کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان تمام معاملات میں درپردہ کوئی خفیہ ہاتھ اور بلاواسطہ یا بالواسطہ امریکی سٹریٹیجی بھی نظر آتی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امریکی الیکشن میں ٹرمپ نے معیشت کی مضبوطی کے نعرے پر ہی ووٹ لیے۔ ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور دوسری طرف چین کی عالمی معیشت پر مضبوط گرفت ،اندریں حالات بیرونی عناصر کے استعمال کے بغیر ٹرمپ کے نظریہ سازوں کے پاس اور کوئی حل نہیں، جبکہ دوسری طرف عرب کی دیگر ریاستوں میں انقلابات اور بادشاہت کے خاتموں کی وجہ سے سعودی شاہی نظام بھی ایک خوف کا شکار ہے، کہ کہیں لیبیا، عراق اور دیگر عرب شاہی حکومتوں کے طرز پر امریکہ یہاں بھی وہی کھلواڑا شروع نہ کر دے۔ امریکی پالیسی سازوں نے اسی خوف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی خزانے کو امریکی معیشت کو مضبوطی کے لیے استعمال کرنے کے لیے پالیسی بنائی ہے تاکہ سعودیہ پر دباؤ بھی قائم رہے اور امریکی مردہ معیشت میں سعودیہ کا خزانہ جان ڈالتا رہے۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے ہی سعودی دورے میں 380 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس میں 110 ارب ڈالر سے صرف امریکہ اسلحہ کی پیداوار کرے گا۔
موجودہ حالات بھی انہی پالیسیوں کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس کی مثال ہم سعودیہ کی سب سے بڑی آئل کمپنی ’’آرامکو‘‘ کی لے سکتے ہیں۔ حالیہ اکھاڑ پچھاڑ سے صرف ایک یوم قبل صدر ٹرمپ نے سعودی حکومت کو ’’ آرامکو‘‘ کے حصص نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں فروخت کرنے کی دعوت دی تھی۔ آرامکو موجودہ دنیا میں سب سے قیمتی کمپنی شمار ہوتی ہے ، جس کی مارکیٹ میں قدر 10 ٹرلین ڈالر ہے۔ یہ کمپنی مکمل طور پر سعودی حکومت کی ملکیت ہے، آرامکو کے نیو یارک سٹاک ایکسچینج میں اس کمپنی کے حصص شامل ہونے سے امریکی تجارتی حجم انتہائی بلند ہو جائے گا، کیونکہ نیو یارک سٹاک ایکسچینج امریکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی رکھتی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی حصص منڈی ہے جس میں یومیہ تجارت کی مالیت تقریباً 170 بلین ڈالر ہے ۔ اس ’’ڈیل‘‘ سے متعلقہ اہم بات یہ ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں سے7 شہزادے آرامکو کی فروخت Privitization کی مخالفت کر چکے ہیں، اور تو اور سعودی سعودی نظریے اور ایما پر چلنے والے تین نجی ٹیلی ویژن کے مالکان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جن کا جرم بھی بھی یہی تھا کہ وہ بھی آرامکو کی فروخت کے خلاف گناہ کبیرہ میں شامل ہیں۔
انہی تبدیلیوں کی راہ میں حائل شہزادہ منصور بن مقرن ایک پرسرار ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گیا جبکہ شاہ فہد مرحوم کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ عبدالعزیز بن فہد گرفتاری کے دوران گارڈ کی فائرنگ سے ہلاک کر دیا گیا۔ حالات اب اس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ تمام نجی جہازوں کو پرواز سے روک دیا گیا ہے،فرار کی کوشش کرنے والے شہزادوں کو مارا جا رہا ہے ۔شاہی خاندان کی بے دریغ شاہ خرچیوں، تیل کی قیمتوں میں کمی اور معاشی گرواٹ کے باعث سعودی خزانہ بھی تنزلی کا شکار ہے ۔ پچھلے چند سالوں میں سعودی حکومت بھی آئی ایم ایف اور عالمی مالیات اداروں کے قرضوں میں پھنستی جا رہے۔
عالمی سیکولر طاقتیں اپنے پنجے یہاں مضبوط کر رہی ہی ہیں، روشن خیالی کو پرموٹ کیا جا رہا ہے ، خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت ہے، انتہا پسند نظریات کا خاتمہ اور سینما گھروں کے قیام کی طرف پیش قدمی ہو چکی ہے ۔ موسیقی کے شو ، دبئی اور پیرس جیسے عیاشی کے اڈے، مخلوط تقریبات ، ثقافتی شو اور ہر طرح سے جدید نئے شہر بسانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ چہ مگوئیاں اب عالمی میڈیا میں عام ہو رہی ہیں کہ ٹرمپ کے منظور نظر جواں سالہ شہزادہ سلمان (MBS) کو جلد ہی اقتدار منتقلی کا مرحلہ آ رہا ہے اسی لیے شاہی خاندان کے وہ افراد ،جو اس منتقلی اقتدار کی راہ میں ممکنہ مزاحمت کر سکتے تھے نہیں ’’احتساپ آپریشن‘‘ کے ذریعے عضو معطل بنایا جا رہا ہے۔ دیکھیں اس احتساب آپریشن اور اقتدار کی منتقلی کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ پھر پس پردہ اہم حقائق مزید واضع ہو جائیں ۔

Comments (0)
Add Comment