ترین گروپ سےکیا حکومت پریشان ہے؟
زبان حلق :تحریر چوہدری رستم اجنالہ
تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے ہم خیال گروپ کا باضابطہ طور پر اعلان کر دیا گیا ہے۔اورہم خیال گروپ نے سعید اکبر نوانی کو پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈ بھی مقر ر کردیا میڈیا تو کافی عرصے سے اس گروپ کو جہانگیر ترین گروپ سے پکار رہا ہے لیکن اب با ضابطہ اسکا اعلان کر دیا گیا ہے اس گروپ کے قیام کا اعلان ہوتے ہی حکومتی ایوانوں میں ہلچل سی مچ گئی ہے جس کا اندازہ آج حکومتی وزیروں مشیروں اور ارکان کے بیانات سی بخوبی لگایا جا سکتا ہے اور تو اور آج تو اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی ٹویٹ کیا ہے کہ میں اسد قیصر ہوں اور میں عمران خان کے ساتھ ہوں ۔اسپیکر کا عمران کے ساتھ ہونے کا کسی کو شک نہیں ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسپیکر صاحب کو یہ وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ جہاں بہت سے وزیروں مشیروں نے بھی عمران خان پر اپنے بیانات کے زریعے اعتماد کا اظہار کیا ہے وہاں کچھ لوگوں نےترین گروپ کے خلاف سخت الفاظ کا بھی استعمال کیا ہے جن میں فیصل واڈا نےکہا ہے کہ ترین گروپ ایک ایس ایچ او کی مار ہے ۔شاہ محمود قریشی صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے بجٹ میں حکومت کا ساتھ نہ دیا تو اس کی تحریک انصاف میں کوئی جگہ نہیں ہو گی ۔ ابھی تک ترین گروپ کا کسی اپوزیشن پارٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہے بلکہ نون لیگ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ترین گروپ کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔ترین گروپ کے لوگ آج بھی عمران خان کے حق میں بیان دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم انکے ساتھ کھڑے ہیں ۔ان سارے حالات کو بغور دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ گروپ حکومت کو ختم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا بلکہ صرف حکومت پر پریشر ڈالنے کے لیے بنایا گیا ہے ابھی تک حکومت کے لیے کوئی پریشانی کی بات نظر نہیں آتی ہے۔لیکن ان حالات میں یہ سب کچھ ہونا حکومت کے لیے اچھی علامت بھی نہیں ہے ۔جس وقت حکومت عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکی ضمنی الیکشنز میں ہر جگہ عوام نے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے ۔اور حکومت عوام کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ ریلف بھی نہیں دے سکی ۔اس بات کو وزیر اعظم کو بہت سریس لینا چاہیےکہ حکومتی وزیروں کے ترین گروپ کے خلاف بیانات جلتی پر تیل کا کام کر رہےہیں اور اگر یہ چنگاری اس تیل کی وجہ سے آگ کی شکل اختیار کر گئی تو وزیر اعظم کے لیے حکومت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا اور انکو اپنی حکمرانی سے ہاتھ بھی دھونے پڑھ سکتے ہیں ۔اگر حکومت ختم ہوتی ہے تو جناب عمران خان صاحب ان وزیروں مشیروں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ اپ کی جماعت پی ٹی آئی کی ساکھ ضرور متاثر ہو گی اس لیے ضروری ہے کہ وزیر اعظم صاحب اس مسلے کو خود ہینڈل کرتے ہوتے اچھے طریقے سے ختم کریں اورترین گروپ کے تخفظات کودور کریں اور اگلے دوسال محنت کر کہ عوام کو کوئی حقیقی ریلیف فراہم کریں جو نظر آئے ورنہ اگلے الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کا حال ضمنی الیکشنز سے مختلف نہ ہوگا