تقریر اور سوشل میڈیا
(زبان حلق )تحریر چوہدری رستم اجنالہ
اجکل سوشل میڈیا پر عمران خان صاحب کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے حوالے سے کھلاڑی متوالے۔ جیالے سب ہی سر گرم ہیں حکومت کے سپوٹر تقریر کو بہت سراہتے نظر آتے ہیں اور اپوزیشن کے سپوٹر تنقید کرنے میں مصروف ہیں اور تقریر میں خامیاں تلاش کر کہ بیان کر رہے ہیں سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر کو بھی شئیر کیا جا رہا ہے کھلاڑی نواز شریف کی پرچیوں والی تصاویر شئیر کر کہ کئی القاب سے نواز رہے ہیں نواز شریف کو نا اہل ثابت کرنے کے چکر میں ہیں ۔اورنون لیگ کے متوالے قائد اعظم کی چند تصاویر شئیر کر رہے ہیں جس میں قائد اعظم بھی پیپرز پر لکھی تقریر کر رہے ہیں اور ساتھ یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ قائد اعظم بھی پرچی سے دیکھ کر تقریر کرتے تھے اور وہ اپنے قائد کو قائد اعظم سے ملا کر اپنی پارٹی کا دفاع کر رہے ہیں بہرحال مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ کون ٹھیک ہے کون غلط ہے یو این او کے اجلاس پہلے بھی ہوتے آئے ہیں اور جب بھی کوئی پاکستانی سربراہ اجلاس میں جاتا ہے تو اسکا کام ہے ہوتا ہے اپنے ملک کی سربراہی کرنا کوئی شق نہیں کہ ہمارے وزیر اعظم نے اچھی تقریر کی ہے اور کرنی بھی چاہیے تھی اس سے پہلے بھی جتنے اجلاس ہوئے اقوام متحدہ کے ان میں جیتنے بھی ہمارے سربراہان نے شرکت کی ہے سب نے ہی مسلہ کشمیر اٹھایا ہے ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں اپنی ذمہ داری نبھائی ہے ہر اجلاس کے بعد ہمیشہ ہی دفتر خارجہ نے اس وقت کے سربراہ کے دورے کو کامیاب قرار دیا ہے یہ سچ ہے کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں کشمیر ایشو پر بہت زور دیا ہے اور اس وقت سخت موقف کی ہی ضرورت تھی کیوں کہ جو حالات اجکل کشمیر میں ہیں وہ پہلے کبھی نہ تھے عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اس ناطے سے انہوں نے اسلام کے حوالے سے بھی اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے جس پر عالم اسلام نے اس بات کو سراہا ہے کشمیر ہماری شہ رگ ہے ہم کو اس کے لیے نہیں بولنا تو کس کے لیے بولنا ہے کشمیر پر بولنا ہمارا ہی نہیں پورے عالم اسلام کی ذمہ داری ہے اگر کوئی سمجھے تو کیوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے تقریر کے ساتھ ساتھ ملک کے حالات کو کنٹرول کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے حکومت کچھ بھی کرے پوری دنیا میں اپوزیشن کا کام تنقید ہی کرنا ہوتا ہے حکومت اپنا کام کر رہی ہے اپوزیشن اپنا کام کرنے میں لگی ہوئی ہے اور عوام ان سیاستدانوں کے لیے اپنے اخلاق اپنے کردار کا بھی جنازہ نکال رہے ہیں اپنی سیاسی آقاؤں کا دفاع کرنے میں اس حد تک بھی لوگ سوشل میڈیا پر گر چکے ہیں کہ انکو مسلمان کہتے ہوئے مجھے تو شرم محسوس ہوتی ہے اج ایک تصویر دیکھی سوشل میڈیا پر کہ کتے کی تصویر پر مولانا فضل الرحمن کا چہرہ لگایا ہوا تھا پہلے تو یہ اخلاقیات کا جنازہ ہے کہ اللہ نے جس کو انسان بنایا ہم اسکو کتا بنا رہے ہیں کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح کی حرکت کو سراہا نہیں جاتااسطرح کی حرکات سے اللہ کے بنائے ہوئے قانون کو چیلنج کر کہ اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اس تصویر سے ہم کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ اس بندے کو انسان نہیں جانور بنانا چاہیے؟ اور معاذ اللہ اسکو اللہ نے انسان کیوں بنایا ہے اور تواور کتے پر جو چہرہ لگایا گیا ہے اس میں سنت کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا جو تصویر بنائی گئ ہے اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت عمامہ شریف اور ڈاڑھی شریف بھی ہے اگر یہ کام کوئی کافر کرتا تو ہم برملا کہتے کہ اسلام دشمنوں کی سازش ہے اس کو قتل کے فتوےلگ چکے ہوتے اور اگر یہ کام کوئی مسلمان کر رہا ہے تو اس کو کیا کہا جائے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کفار نے یہ سب کچھ اس طرح سے ہمارے ذمہ یہ کام لگا دیے ہیں کہ ہم لوگ یہ کام کر کہ فخر محسوس کر رہے ہیں اور اب سنت کا مذاق کرنے کی کفار کو ضرورت ہی نہیں رہی بلکہ مسلمان ہی یہ کام کر کہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ثواب کا کام کر رہے ہیں لیکن یہ کام کوئی ثواب کا کام نہیں ہیں بلکہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں کچھ دن پہلے زلزلہ پاکستان پر قیامت بن کر ٹوٹا ڈینگی سے ہر روز لوگ مر رہے ہیں اج ہی نیوز میں سنا ہے کہ چونیاں میں ایک اور بچے کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے اور اس طرح قتل ہونے والے بچوں کی تعداد پانچ ہو گئی ہے اور ابھی تک قاتل پولیس کی پہنچ سے دور ہے میری پاکستانی عوام سے التماس ہے کہ خدا راہ اپنے اپکو سنبھالیں ان سیات دانوں کے لیے اپنے ایمان برباد نہ کریں اور اللہ سے اپنے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں تاکہ اللہ تعالی پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہم پر اپنا رحم و کرم فرما کر عذابوں سے نجات فرمائے حکومت اپوزیشن اور ہر ادارے کو اپنا اپنا کام کرنے دیں اگر کوئی اچھا کام کرے گا تو اللہ اسکو اسکا اجر عطا فرمائے گا اور اگر کوئی غلط کرے گا تو وہ بھی اللہ کو جواب دے ہو گا ہم نے اپنے کیے کا جواب دینا ہے ہر بندے نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہےقیامت کے روز یہ سیاست دان ہمارا دفاع نہیں کریں گے جن کا ہم اج دفاع کرتے کرتے ہر حد کراس کر جاتے ہیں خدا راہ سمبھل جاؤ اگر کسی کو میری بات بری لگی ہو تو معافی چاہتا ہوں میں نے اپنے پاکستانی بھائیوں کی اصلاح کے لیے لکھا ہے نہ کہ کسی کی دل آزاری میرا مقصد تھا ۔اللہ ہمارا حامی وناصر رہے آمین ثم آمین میرا کالم اخبار میں پڑھنے کے بعد اخبار کو بے حرمتی سے بچانا پلیز کیوں کہ کالم میں کافی بار اللہ تعالی کا نام اور نبی پاک صلی اللہُ علیہ وسلم کا نام بھی تحریر ہے ان ناموں کی تعظیم ہم پر مسلمان ہونے کے ناطے واجب ہے اللہ تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تعظیم کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے اور ہر قسم کے عذاب سے نجات عطا فرمائے آمین