جمہوریت کی آڑ میں تحریر احمد نوید

جمہوریت کی آڑ میں

آجکل پاکستان میں بڑے بھاری الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیںکوئی عدل کی تحریک لے کر چل نکلا ہے کسی کو انصاف چاہئے کوئی منصف کو للکار رہا ہے روز حشر کا سماں باندھا جا رہا ہے۔ سیاسی شعبدہ بازوں کا دلچسپ کھیل جاری ہے ہر کوئی خود کو مظلوم بے قصور بے گناہ معصوم سمجھ اور سمجھا رہا ہے اور دوسرا اس کی نظر میں چور ڈاکو قاتل ظالم ہے۔ عدل انصاف منصف بہت وزنی الفاظ ہیں صاحب ایمان و تقوی کے منہ سے ہی سجتے ہیں اور بول کون رہے ہیں جو عدل و انصاف اور منصف کی الف بے سے نا آشنا ہیں۔ جمہوریت کی آڑ میں ذاتی خزانے بھرے جاتے ہیں اور جب معاملات کھل جاتے ہیں تو جمہوریت بچاﺅ کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ بیت اللہ شریف کے روبرو رب ذوالجلال کے ترازو عدل کا تصور کریں تو جان نکل جاتی ہے۔ عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے فضل کریں تے بخشے جاون میں جیسے منہ کالے۔۔۔ حکمران طبقہ سے نیچے تک بے انصافی کی ایسی ایسی مثالیں قائم ہیں کہ بندہ بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے ”لگتا ہے تجھے مرنا نہیں“۔۔۔ جس کا بس چلتا ہے دوسرے کی حق تلفی اور دو نمبری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ با اختیار طبقات کی بے انصافیاں قابل دید ہی نہیں قابل عبرت ہیں۔ لوگ ڈھیٹ ہو چکے ہیں۔ خودداری اور عزت نفس نامی شے سے محروم ہو چکے ہیں ہر چیز بکتی ہے۔ ضمیر بک جائے تو پھر سب کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ اس ملک کا کوئی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں۔ بے انصاف معاشرہ کے ساتھ پروردگار انصاف کرنے پر آیا تو ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ خدا کا خوف اٹھ چکاہے ہر چیز الٹ پلٹ ہو کر رہ گئی ہے جن خوشامدیوں کی ٹانگیں قبر میں ہیں حکومتی طبقہ انہیں بھی نواز دیتا ہے۔ حق داروں کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ باصلاحیت افراد پیروں پر کھڑے ہونے کو ترس رہے ہیں۔ میڈیا کا ہی حال دیکھا جائے تو اداکار فنکار اینکر بن گئے ہیں اور صحافت کی ڈگریاں لینے والے روزگار کی تلاش میں دھکے کھا رہے۔ ٹیلنٹ، میرٹ، جذبہ، علم، بے معنی ہو چکا ہے۔ ادائیں اور سفارش نااہل خواتین کو وہاں پہنچا سکتی ہے جہاں کوئی شریف انسان پہنچنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ اس بے انصاف معاشرے میں سفارش اور گھٹیا کردار سے مفادات اور شہرت تو حاصل کی جا سکتی ہے لیکن عزت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ جو ادارہ دیکھو بے انصافی اور کرپشن کی عبرت ناک مثال بنا ہوا ہے۔ جس کا اختیار چلے وہ ناجائز کام بھی حیران کن طریقے سے کروا لیتا ہے اور جس کا کوئی سننے والا نہیں اس کا جائز کام بھی ہونا ناممکن ہے۔ اس بے انصاف معاشرے کے حکمران عدل کے طالب ہو سکتے ہیں ؟ الا ماشاءاللہ قلم بک چکے، ضمیر بک چکے، کردار بک چکے۔ عزت حکمرانوں کو راس نہیں آتی۔ جعلی عزت خریدنے کیلئے جعلی صحافی خریدنے پڑتے ہیں۔خوشامدمنہ کو ظالم ایسی لگا دیتے ہیں کہ خوشامد کے سوا کچھ سنائی دکھائی نہیں دیتا۔ اس بے انصاف معاشرے میں فقط پیسہ چلتا ہے۔ پاکستان پیسے کی دوڑ اور ہوس میں بہت دور نکل چکا ہے۔ اسلامی ملک میں مذہب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے لیکن الا ماشاءاللہ قلوب حضور ی سے محروم ہیں۔ جب نفس اپنی ضد چھوڑ کر اللہ عزوجل اور اس کے رسول علیہ الصلوة والسلام کے سامنے اپنا سر جھکا کر عاجزی کی چادر اوڑھ لیتا ہے اور دل دنیا کی محبت سے اچاٹ ہو کر اللہ عزوجل کی یاد کے لئے ز±ہد کے کوٹھے میں جا بیٹھتا ہے تو پھر ایسا بھی ہوتا ہے جیسا صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی جبرائیل علیہ السلام کو طلب فرماتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے۔۔۔اے جبرائیل مجھے فلاں شخص سے محبت ہو گئی ہے۔۔۔ ذرا اس جملے پر غور تو فرمائیے کہ وہ بے نیاز رب جو خالق ارض و سماوات ہے، فرشتوں کے سردار ، روح القدس کو بلا کر اپنا راز محبت بتا رہا ہے کہ مجھے فلاں شخص سے پیار ہو گیا ہے۔ اب جبرائیل علیہ السلام کے لئے کیا حکم ہے؟ ارشاد ہوتا ہے، اب تو بھی اسے اپنا محبوب بنا لے۔

پھر عالم ملکوت میں اس راز محبت کو افشاءکر دیا جاتا ہے اور آسمان والوں میں اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اللہ عزوجل فلاں شخص سے پیار کرتا ہے۔ اس لئے اے اھل السماءتم سب بھی اس شخص کو اپنا محبوب بنا لو۔۔۔اللہ کی محبت کی دولت سے بڑی نہ کوئی دولت ہے نہ نعمت لیکن یہ دولت خلق خدا کے پیٹ کاٹنے والوں کے مقدر میں نہیں۔ جمہوریت کی آڑ میں ملک مہذب عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔ بے وقوف بنایا جاتا ہے جو نہیں جانتے جمہوریت کس بلا کا نام ہے۔ اللہ سے بھی تعلق بن سکا نہ جمہوریت ہی نصیب ہو سکی۔ ستر برس کا ہو گیا ہے لیکن پاکستان آج تک اپنی پہچان حاصل نہ کر سکا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment