جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے ایک بہت اہم انکشاف کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے دوران انہیں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک کا فون آیا کہ بلوچستان سے نامزد امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ اس پر سراج الحق نے خٹک صاحب سے پوچھا کہ یہ امیدوار کون ہے؟ جس پر وزیر اعلیٰ نے امیر جماعت اسلامی کو بتایا کہ انہیں خبر نہیں کہ امیدوار کون ہے۔ سراج الحق نے مزید کہا کہ سینیٹ الیکشن کے دوران تحریک انصاف نے انہیں کہا کہ حکم اوپر سے ملا ہے کہ چیئرمین کے لیے سنجرانی کو ووٹ دینا ہے۔ سراج صاحب نے مزید کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ یہ حکم عرش معلی سے آیا یا کہیں اور سے۔ حالانکہ امیر جماعت اسلامی کو یہی تو معلوم کرنے کی ضرورت تھی کہ یہ حکم کس نے اوپر سے بھیجا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اوپر سے تحریک انصاف کا مطلب عمران خان ہو!!! اس کا کوئی اور بھی مطلب ہو سکتا ہے لیکن اس سوال پر کہ اوپر سے کس نے حکم دیا مجھے تو سر کھپانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ کھوج لگانے کا مناسب وقت ہے۔ آج کل کچھ معاملات میں خاموشی اختیار کرنے میں ہی خیر ہے۔ ویسے اوپر سے حکم دینے والا جو بھی ہے، سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے بعد نعرہ ایک ذرداری سب پر بھاری ہی لگا اور اس بات کا بھی ذکر سراج الحق نے اپنے تازہ بیان میں
کیا۔ سینیٹ کا الیکشن ہارنے کے بعد ن لیگ کے رہنما تحریک انصاف کو طعنہ دیتے ہیں کہ خان صاحب کی جماعت نے تو سینیٹ الیکشن میں تیر کے نشان پر مہر لگائی۔ ویسے بلاول بھٹو نے اپنے ایک حالیہ بیان میں خان صاحب کو یہی چوٹ لگائی کہ وہ سیاسی بیان جو مرضی پی پی پی کے خلاف دیں انہوں نے سینیٹ الیکشن میں تیر کو ووٹ دیا اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ نجانے بلاول صاحب نے مستقبل کے بارے میں ایسی پیش گوئی کس بنیاد پر کی لیکن سراج الحق کی بات سن کر اب محسوس ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں پھر اوپر سے تحریک انصاف کو حکم مل جائے کہ جو زرداری صاحب کہیں اُن کی بات مان لی جائے۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری کے حالات بنتے نظر آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب بدل گئے، انہوں نے ماضی سے سبق سیکھ لیا۔ اور انہیں اب اس بات کی سمجھ بھی مکمل طور پر آ چکی ہے کہ پاکستانی سیاست میں کامیابی کی کنجی کیا ہے۔ وہ شاید یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ یہ کنجی کس کے پاس ہے۔ اس کنجی کو کھیچنے اور چھینا چھپٹی میں اپنا نقصان کرنے کی بجائےزرداری صاحب نے اُس ہاتھ کو ہی چومنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس ہاتھ میں اُنہیں یہ کنجی نظر آ رہی ہے۔ ان حالات میں معلوم نہیں کہ تحریک انصاف کا کیا بنے گا؟؟ خان صاحب تو سمجھ بیٹھے ہیں کہ سب کچھ اُن کے لیے سجایا جا رہا ہے اور اسی لیے اُنہوں نے گزشتہ تین چار سال دن دیکھا نہ رات، جو کسی نے کہا وہ آنکھیں بند کر کے کر دیا ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں اُبھرنے والے نئے سیاسی اتحاد ایک زرداری کو سب پر بھاری کرنے کے لیے ہی کام آئیں گے۔ پیپلز پارٹی کے اندر کئی لوگ بلاول زرداری بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اور نفیسہ شاہ صاحبہ نے ایک دو روز قبل یہ اعلان بھی کر دیا کہ بلاول ہی پیپلز پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ لیکن زرداری صاحب تو شاید خود ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول کی ابھی بڑی عمر پڑی ہے۔ ابھی تو بلاول کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ زرداری صاحب اپنے ہر انٹرویو میں اپنے گزشتہ دور حکومت کی کامیابیوں کو گنوا گنوا کر نہیں تھکتے۔ نجانے کیوں اُن کی حکومت کے ساتھ کرپشن اور نااہل حکمرانی کو جوڑا جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کی طرح زرداری صاحب کو بھی کوئی حکم مل رہا ہے یا نہیں لیکن وہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنانے کے لیے پر تول رہے ہیں تاکہ ایک اور ’’سنہری دور‘‘ کے ذریعے پاکستان کی ’’خوب خدمت‘‘ کی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ تو ہاتھ ہو جائے گا؟؟ بشکریہ روزنامہ جنگ