خوابوں ، وعدوں اور نعروں کی سر زمین تحریر شفقت رضا

دُنیا بھر کی طرح یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی تارکین وطن بھی جفا کش ، محنتی ، ایماندار اور ملنسار جیسے القابات رکھتے ہیں ، جن ممالک میں ہمارے ’’کماؤ پوت‘‘ د ن رات محنت کرکے پاکستان میں مقیم اپنے خاندانوں کی کفالت میں مصروف ہیں اُن ممالک کی مقامی کمیونٹی پاکستانیوں کو دوسری اقوام کے برعکس بہتر اور احسن گردانتی ہے ، یورپی ممالک میں پاکستانیوں سمیت چائنا ، انڈیا ، بنگلہ دیش ، سر ی لنکا ،رومانیہ ، لاطینی امریکہ، براعظم افریقہ اور بہت سے دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے’’ امیگرنٹس ‘‘دولت کمانے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں ، یورپی ممالک میں مقیم تارکین وطن کو درپیش مسائل اور اُن کی تکالیف دور کرنے کے لئے اُن کی حکومتیںان کا بھر پور ساتھ دیتی ہیں جبکہ پاکستانی تارکین وطن کے مسائل کا حل اُن کی کسی بھی حکومت نے آج تک تلاش کیا اور نہ ہی کبھی کوئی سہولت اُن کی جھولی میں ڈالی۔یورپی ممالک میں کام کرنے والے تارکین وطن اپنی کمائی ہوئی دولت کو اپنے ممالک میں ترسیل کرنے کے حوالے سے سخت پریشان ہیں ، پاکستانی تارکین وطن تین ماہ میں تین ہزار یوروز سے زیادہ رقم وطن عزیز نہیں بھیج سکتے ، اس حساب سے ایک ماہ میں ایک ہزار یورو بھیجا جا سکتا ہے ۔ پاکستانیوں کو اگر تین ہزار یوروسے زیادہ کی
ترسیلات کرانی مقصود ہوں تو انہیں ’’ ہُنڈی ‘‘ یا کوئی بھی غیر قانونی ’’ شارٹ کٹ ‘‘ استعمال کرنا پڑتا ہے جہاں پولیس کے ہتھے چڑھ جانے پر تمام رقم بھی ضبط اور جیل کی سزا علیحدہ سے بھگتنا پڑتی ہے ۔سزا بھگتنے والے پاکستانی قیدیوں کو حکومت پاکستان کسی قسم کی امداد فراہم نہیں کرتی ، اور نہ ہی جیلوں میں قید کاٹنے والوں کا کوئی پرسانِ حال ہوتا ہے ۔دوسری جانب چائنا کے باشندوں کو اُن کی حکومت جہاں کاروبار کرنے کے لئے سرمایہ فراہم کرتی ہے وہاں چائنیز کی مکمل پشت پناہی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، یورپی ممالک میںمقیم تارکین وطن اپنی’’ پاکٹ‘‘ میں تین ہزار یورو سے زیادہ کی رقم نہیں رکھ سکتے ، اگر زیادہ رقم برآمد ہو جائے تو بتانا پڑتا ہے کہ یہ رقم کہاں سے لی اور کہاں خرچ کی جائے گی ؟ یورپین تھنک ٹینکس کے مطابق زیادہ رقم دہشت گردی کے لئے کام میں لائی جاتی ہے اس لئے زیادہ رقم رکھنے والوںکے لئے خصوصی طور پر بنائی جانے والی دفعہ کا اندراج کرکے انہیں ’’ سہولت کار ‘‘ کا لقب دے کر جیل میں بند کر دیا جاتا ہے ، لیکن کسی چائنیز کو اگر بڑی رقم کے ساتھ پکڑ لیا جائے تو چائنا کی حکومت اپنے باشندے کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرتی ہے ، وکلاء کا اہتمام کرنا اور جیل میں اپنے قیدیوں کی دیکھ بھال چینی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ، پاکستانی امیگرنٹس جب یہ سب دیکھتے ہیں تو وہ اپنی حکومت کو کوستے ہیں اور دُعا کرتے ہیں کہ یا اللہ جو حکومت ہمارے بھیجے ہوئے زر مبادلہ سے قومی خزانہ سیراب کر رہی ہے وہ ہمارے مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی کرے ، لیکن یہ خواب شاید انہیں شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا ۔تارکین وطن پاکستانیوں کو دوسرے ممالک میں ساتھ رہنے والی مقامی کمیونٹی کی جانب سے کئی بار تمسخرانہ گفتگو کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہاں کے افراد پاکستانیوں کو کبھی 10پرسنٹ ،چور اُچکا ،ترکی کی خاتون اول کا سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دیا جانے والا ہیروں کا ہار اپنے گھروں میں لے جانے والا ،شادی کرکے چھپانے والا ، اپنے خاندان کو سیاست کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے قربان کرنے والا ،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو قتل اور عوامی وزیر اعظم کو پھانسی چڑھانے والا، ایٹم بم بنا کر ملکی دفاع کو تاقابل تسخیر بنانے والے کو خاک نشیں کرنے والا ، ایمل کانسی اور عافیہ صدیقی کو امریکی حکومت کو پیش کرنے والا ، پاکستان کے بیٹوں کو قتل کرنے والے ریمنڈ ڈیوس اور کار سے کچلنے والے کرنل جوزف کو استثنا دینے والا ، ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن جیسوں سے سودے بازی کرنے والا ، آف شور کمپنیاں بنانے والا ، پاکستان کی دولت لوٹ کر غیر ملکی بینک بھرنے والا ،جیلوں میں کئی کئی سال سے پھانسی کے منتظر مجرموں کو پھانسی کا انتظار کرانے والا ، ایک سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں جانے والا اور جس پارٹی کو چھوڑ کر گیا اُس پر کیچڑ اُچھالنے والا اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں ۔اُس وقت تارکین وطن پاکستانیوں کے چہروں پر بے چارگی صاف نظر آ رہی ہوتی ہے ۔اسپین کے شہر بارسلونا میں ہمیں ایک مقامی باشندے نے کہا کہ تمہارے وزیر اعظم کو امریکہ کے ایئر پورٹ پر بڑے’’ عجیب و غریب ‘‘انداز میں تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑا ، ہم نے شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے جواب دیا کہ ’’ جو کپڑے اُتارے گئے تھے وہ امریکہ کے ہی تھے ، اگر ہمارے وزیر اعظم اپنے کپڑے پہن کر جاتے تو کیا جرات تھی امریکی اہل کاروں کی کہ وہ ایسی حماقت کرتے ، ہم نے مزید بتایا کہ ہم امریکی احسانات اور قرضوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں ، ہمارے ملک میں تو پیدا ہونے والے بچے تک مقروض ہیں سب کچھ تو امریکہ کاہے اب جس کا سب کچھ ہے وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اس میں اعتراض کیسا؟ ہمارا جواب سن کر مقامی باشندہ لا جواب ہو گیا ۔ادھر پاکستان میں 2018 کے قومی انتخابات کی آمد آمد ہے، سیاسی بساط بچھ چکی ہے، بساط پر مہروں کی جگہ ضرور بدلی ہے لیکن مہرے وہی پُرانے ہیں ،وہی بیس بائیس خاندان ہیں جو موسمی پرندوں کی طرح اپنی جگہیں تبدیل کر لیتے ہیں کبھی عوام کے وسیع تر مفاد کے لئے اور کبھی خود زندہ رہنے کے لئے، دیکھنا یہ ہے کہ اس بار سیاستدان کن نعروں اور وعدوں کی بین سُنا کر پاکستانی عوام کو رام کر کے اُن سے ووٹ لیتے ہیں ؟ ویسے ووٹ لینے کے انداز اور اطوار میں تحریک انصاف کا پلڑابھاری نظر آ رہا ہے ۔پاکستان کے وزیر خارجہ نے ایک احسن اور دلیرانہ اقدام کیا کہ اُس شخص کو معاف کر دیا جس نے اُن پر سیاہی پھینکی تھی، لیکن ساری پاکستانی قوم اس انتظار میں ہے کہ اُسے معافی کب ملے گی ؟بات ہو رہی تھی تارکین وطن پاکستانیوں کے مسائل اور اُن کے حل کی اور ہم بات کو کس جانب لے گئے ، خیر کچھ بھی ہو تارکین وطن پاکستانی اپنے ملکی سیاسی حالات اور اُتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھتے ہیںاُن کے دل میں وطن عزیز کی عزت اور آبرو پاکستان میں رہنے والوں سے کہیں زیادہ ہے ، تارکین وطن پاکستانیوں نے ملک میں احتساب کے عمل میں تیزی کوخوش آئند اورپاکستان کو دہشت گردی اور کرپشن سے پاک مملکت بنانے کے عزم پرعدلیہ کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے

Comments (0)
Add Comment