دہشت گردکوزندہ کیوں نہیں پکڑا گیا؟

سانحہ ساہیوال میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے ذیشان کی والدہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے سوال کیا ہے کہ اگر میرا بیٹا دہشت گرد تھا تو اسے زندہ کیوں نہیں پکڑا گیا؟
سانحہ ساہیوال میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے ذیشان اور خلیل کے ورثاء نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ سے ملاقات کی۔ سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے بھائی جلیل اور مقتول ذیشان کی والدہ زبیدہ بی بی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہوئیں۔


اجلاس میں سانحہ ساہیوال میں جاں بحق افراد کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی، اس موقع پر کمیٹی کے سیکریٹری نے سینیٹ میں پاس کی گئی رولنگ پڑھ کر سنائی جس کا رحمان ملک نے پنجابی زبان میں ترجمہ کر کے لواحقین کو سنایا۔دورانِ اجلاس مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے واقعے کی اپنے پاس لکھی ہوئی تفصیلات پڑھ کر سنائیں،ذیشان کی والدہ زبیدہ بی بی نے کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا واحد سہارا تھا، اگر انہوں نے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا تھا تو اسے زندہ پکڑتے، بھارتی جاسوس کو زندہ پکڑا ہے تو میرے بیٹے کو زندہ کیوں نہیں پکڑا؟یہ حکومتی وزیر کھڑے ہو کر میرے بیٹے کو دہشت گرد کہتے ہیں، کیا انہیں بات کرنے کی تمیز نہیں؟
ذیشان کے بھائی احتشام نے کہا کہ میرے بھائی کے خلاف پورے پاکستان میں کوئی ایک ایف آئی آر درج نہیں ہے اور نہ کوئی اس کے خلاف درخواست موجود ہے، میں نے ڈولفن فورس میں بھرتی کے لیے درخواست دی تھی اور والد کی بجائے بھائی ذیشان کے شناختی کارڈ کی کاپی لگائی تھی، سب نے سیکیورٹی کلیئرنس دی اور مجھے نوکری مل گئی تھی، ساہیوال واقعے میں ناصرف ہمارے گھر کا سربراہ چھین لیا گیا بلکہ اس پر دہشت گرد ہونے کا الزام بھی لگا دیا گیا، میرا بھائی کیسا دہشت گرد تھا جس کو مارنے کے بعد اس کے خلاف ثبوت بنائے یا اکٹھے کیے جارہے ہیں۔ سنینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک نے کہا کہ واقعے کے 6 گھنٹے بعد ہی کمیٹی نے اس معاملے کا نوٹس لیا تھا، فوری ہی سینیٹر جاوید عباسی نے سینیٹ کے ایوان میں ایک قرارداد بھی پیش کی تھی، ہم یہاں پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر بیٹھے ہیں، ہم یہ تحقیقات آپ کے خاندان کے رکن کے طور پر کررہے ہیں، انصاف ایسے ہی ملتا ہے۔
مسلم لیگ نون کے رہنما و سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اس سارے کیس میں پولیس ملوث ہے، انہیں کسی دہشت گرد نے نہیں مارا، ہم پولیس کی کسی تحقیقات کو نہیں مانتے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان کو مارنے والے ہی ان کی تحقیقات کریں، پولیس سے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات واپس لی جائیں، آج بھی جے آئی ٹی کام کررہی ہے وہ کس قانون کے تحت کام کررہی ہے، جب کمیٹی اور سینیٹ نےپولیس تحقیقات مسترد کردیں تو یہ کیسے کام کر رہے ہیں،فوری طور پر اس معاملے پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔
دوران اجلاس سینیٹر اعظم سواتی اورسینیٹر جاوید عباسی کے بیچ میں تلخ کلامی بھی ہوگئی، سینیٹر جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ ساہیوال واقعے پر حکومت نے 5مرتبہ مؤقف بدلا ہے، جس پر اعظم سواتی نے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں حکومت کا نام کیوں لیا گیا۔
سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سانحہ ساہیوال میں حکومت ملوث ہے۔
اسلام آباد روانگی سے قبل سانحہ ساہیوال میں قتل کیے گئے ذیشان کی والدہ زبیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ انصاف کی امید لے کر اسلام آباد جارہے ہیں، پچھلی دفعہ ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوئی تھی۔
مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں، دھمکیوں سے متعلق ہمارے وکیل کا دعویٰ خود ساختہ ہونے کی وجہ سے ہم نے وکیل ہی تبدیل کرلیا ہے بشکریہ روزنامہ جنگ

Comments (0)
Add Comment