تحریر ۔محمد علی رضا ۔
خلافت راشدہ کا دور تھا۔ خلیفہ وقت، رعایا کی داد رسی کے لیے راتوں کو قریہ قریہ ، بستی بستی خود چل کر جایا کرتے تھے۔ ایک رات خلیفہ معمول کے دورے پر تھے ، ایک خیمہ پر نظر پڑی،جہاں سے کوئی تکلیف دہ کراہنے کی آواز آ رہی تھی۔ آپ خیمہ کے پاس پہنچے ، باہر ایک شخص بیٹھا تھا، اس سے احوال پوچھا تو پتہ چلا، اندر خیمہ میں اس کی زوجہ درد ِزہ میں مبتلا ہے۔
خلیفہ وقت نے اس شخص کو سینے سے لگایا، دلاسہ دیا اور کہا ، پریشان نہ ہو، اندر جا کر بیوی کی دل جوئی کرو، میں ابھی واپس آتا ہوں۔
خلیفہ وہیں سے فوراً اپنے گھر ، تیز رفتاری سے پہنچے ، اپنی اہلیہ کو ہمراہ لیا اور کچھ ضروری سامان کے ساتھ واپس اسی خیمے پر پہنچے۔ اہلیہ کو اندربھیج دیا اور خود خشک لکڑیاں اکٹھی کرنے لگے، آگ جلائی اور باقی سامان نکال کر اس پر ہانڈی رکھ دی اور خود ہی سارا کھانا تیار کیا۔
اسی اثناء میں اندر سے آواز آئی، اے امیر المؤمنین، اپنے ساتھی کو بیٹے کی ‘ولادت کی خوشخبری دیجیے!جیسے ہی اس شخص نے لفظ ” امیر المؤمنین ” سنا وہ ڈر کر پیچھے ہو گیا۔ آپ نے احترام و شفقت سے اسے پاس بٹھایا ، کھانا کھلایا اور اپنی زوجہ سے بھی کہا کہ اس کی اہلیہ کو پیٹ بھر کر کھلاؤ۔ وہ شخص پریشان اور حیران تھا کہ خلیفہ وقت یہاں کیسے؟ آپ نے اس کی حیرانی کو دور کرنے کے لیے اس کا ہاتھ تھاما اور فرمایا کل صبح میرے پاس آنا، میں تمہاری تمام ضروریات کو پورا کر دوں گا۔
اگلے دن وہ خلیفہ سے ملنے گیا، بلا روک ٹوک ملاقات ہوئی، اور اپنی تمام ضروریات زندگی کی اشیاء کو حاصل کر کے، بخوشی واپس آ گیا۔ یہ تھی والی مدینہ کے خلفاء کی ریاست مدینہ ۔ جی ہاں! ریاست مدینہ۔ یہ تھے والی ریاست امیر المؤمنین عمر فاروق، وہ عمر فاروق کہ جس نے آدھی دنیا میں اسلام کی فتح کا پرچم سر بلند کیا، جن کو خود نبی اکرم ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے جنتی ہونے کی بشارت دی ۔
جس کے جلال کا یہ عالم تھا کہ شیطان آپ کے سایہ سے بھاگتا ،جس کا نام سن کر قیصر و کسریٰ پر لرزہ طاری ہو جاتا تھالیکن اپنی ذمہ داری اور فرائض منصبی کے ساتھ خلوص تو دیکھیے کہ راتوں کو جاگ جاگ کر بے سہارا لوگوں کی خیر خواہی کرتے ، زمانے بھر کے ستائے ہوؤں کو سینے سے لگاتے ، ڈھونڈ ڈھونڈ کر مستحقین کی مدد کرتے، اپنے فرض سے کمٹمنٹ کایہ عالم تھا کہ آپ فرمایا کرتے، نہر فرات کے کنارے اگر ایک بکری بھی بھوکی مر جائے تو اس کی ذمہ داری بھی مجھ پر عائد ہو گی۔
آپ کی گورننس اور ایڈمنسٹریشن کے ماڈل کو اپنا کر ، غیر مسلموں نے اپنی ریاستوں کو ماڈل اور ویلفیئرریاست بنا لیا اور ایک ہم ہیں اور ہماری”ریاست مدینہ” ۔
ظلم و نا انصافی ، حیوانوں سے بدتر ‘انسانوں سے سلوک، غربت ، ننگ و افلاس ، لوٹ مار، بے رحمی اور لا قانونیت سے لتھڑی ریاست کو “ریاست مدینہ” کا برانڈ بنانے والو پہ حیرت ہے ۔ جس طرح اسلام کے نام پر ،ریاست کے حصول کے بعد’ اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا۔
اسی طرح آج اس ” برانڈ نام” کے تقدس کو پامال کر کے ،آپ کو مدنی ریاست کے والی ﷺ کے زریں اصولوں اور تعلیمات کے علاوہ ، اس میں ہر چیز نظر آئے گی۔ آپ ریاست کے تینوں بنیادی ستونوں کی مثال لیجیے ، مقننہ، انتظامیہ و عدلیہ ، کیا آپ کو کہیں بھی ان میں رحم دلی، بھلائی، خیر خواہی، عوام کا درد، دیانت داری ، کمٹمنٹ ، یا کہیں بھی کسی مقام پر بھی اسلامی سوچ ، اسلامی تعلیمات ، حتی کہ انسانیت نام کی کوئی چیز بھی نظر آتی ہے ؟
ریاست کی اشرافیہ ، حکمران طبقہ اور ان کے ہرکاروں کے رنگ ڈھنگ ،طمطراق ، طرز زندگی میں ، کہیں بھی ، کوئی بھی ہلکی سی تشبیہ ، کوئی ہلکی سی جھلک بھی کہیں اسلامی نظام حیات کی نظر آتی ہے ؟
ریاست کی باگ ڈور چلانے والی انتظامیہ ، سر عام !سانحہ ساہیوال میں ایک مظلوم، معصوم ، بے گناہ اور نہتے خاندان کو دن دیہاڑے ، بیچ چوراہے کے ان کے جسموں کو ،عوام کے ہی دیئے ہوئے خون پسینے سے نچڑے پیسوں (ٹیکسوں)کی گولیوں سے، چھلنی کر دیتی ہیں اور اس بربریت پر، حکمران طبقے کے دلوں میں رحم کے آثار تک نظر نہیں آتے ۔
ماڈل ٹاؤن سانحہ میں ، قوم کی مظلوم، معصوم بیٹیوں کے چہروں کو ،درندگی کے ساتھ آتشیں اسلحہ کے ساتھ ،چھلنی کر دیا جاتا ہے اوران کے بچوں اور پسماندگان کو آج تک ایک دفتر سے دوسرے دفتر ، ایک عدالت سے دوسری عدالت ، روزانہ ظلم کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔ مگر ان کی داد رسی کے لیے عوام آتی ہے نہ کوئی ریاستی اہلکار ۔
آپ حکمران طبقہ کو چھوڑیے ، آپ اپنے ہی اردگرد عوامی سطح پر دیکھ لیجیے ، رحم دلی ، اخوت ، ایثار ، داد رسی و دلجوئی ناپید ہو چکی ہے ۔
بس چلتی پھرتی لاشیں ہیں ہر طرف، رحم سے عاری ، احساس سے محروم ، بے حسی و بے مروتی چار سو پھیلی نظر آئے گی، دفتروں میں ہر کوئی اپنے ہی ساتھی کی ٹانگ کھینچتا نظر آئے گا، تعلیمی اداروں میں نسلوں کے مستقبل کا سودا ہوتا ہوانظر آئے گا، مسجدوں میں فرقہ واریت کی چنگاریاں سلگ رہی ہوں گی، بازاروں میں چور بازاری اور ملاوٹ سر عام ہو رہی ہو گی ۔
عدالتوں میں انصاف کے سوا’ سب کچھ ہوتا نظر آئے گا۔ گوادر کے ساحلوں سے لے کر خنجراب کے کوہساروں تک ، ہر رنگ، ہر نسل، ہر ذات ، ہر فرقہ، ہر مذہب کا آدم زاد ، اس نظام سے ڈسا ہوا نظر آئے گا۔ اپنے اپنے کنویں کے اندر ، مینڈک کی طرح ٹر ٹراتا نظر آئے گا۔ نہ کوئی خالص انسان نظر آئے گا، نہ کوئی خالص شے ، ہر انسان اپنے غموں کا ماتم کرتا ، کسی کندھے کی تلاش میں نظر آئے گا، جس پر سر رکھ کر وہ رو سکے، مگر 22 کروڑ انسانوں کی بستی میں ‘کوئی ایک کندھا اسے میسر نہیں آئے گا۔
آپ سب صاحب شعور ہیں، صاحب فہم و عقل ہیں، آپ خود فیصلہ کیجیے، کیا یہ “ریاست مدینہ ” ہے؟ کیا ہم مدنی ریاست بنانے کے اہل بھی ہیں ، کیا ہم ایسی مثالی ریاست کے، قابل بھی ہیں۔ سوچیے اور خود فیصلہ کیجیے!