سلسلہ عظمیہ مراقبہ ہال لندن کے زیرانتظام روحانی محفل

سلسلہ عظمیہ مراقبہ ہال لندن کے زیرانتظام روحانی محفل کا انعقاد ۔رپورٹ (عبدالروف عظیمی) لندن ۔سلسلہ عظیمیہ مراقبہ ہال لندن کی جانب سے روحانی پروگرام 41 وان عرس قلندر بابا اولیاء ؒ بروز اتوار 5 جنوری 2020 منعقد کیا گیا۔انگلینڈ کے تمام شہروں سے سلسلہ عظمیہ کے بہن بھائیوں، بچوں، بزرگوں اور پاکستانی کمیونٹی نے بھرپور شرکت کی ۔
قلندر بابا اولیاء کی شان میں Rubaiyat روباعیات پڑھی۔
روحانی پروگرام میں مقررین نے قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات پر مقالے پیش کیے مقررین نے کہا کہ,صوفیاء کرام کے پیغام کو عام کرکے پیار ومحبت اور امن کے فروغ کو آسان بنایا جاسکتا ہے رب کریم اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے.
اور بچے نے کہا کہ مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے ارشاد فرمایا کہ
قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے اک دن سامنےبٹھا کرفرمایاکہ زندگی گزارنےکےدوطریقےہیں۔کچھ بننے کے بھی دو طریقے ہیں۔کسی سے کچھ حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں کسی کو کچھ دینے کے لئے بھی دو طریقے ہیں۔
اور وہ دو طریقے یہ ہیں کہ انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں سے اپنی بات منوا سکے* انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں کو اپنا ہم ذہن بنا سکے*
انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ صدیوں پرانی منفی روایات کو دفن کر سکے۔ حقیقی اور مثبت روایات کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ساری دنیا کا مقابلہ کرنے کی جرأت اور ہمت ہو۔اس موقع پر سلسلہ عظیمیہ کے مرشد ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی کے چیف ایڈیٹر خواجہ شمس الدین عظیمی نے ٹیلی فونک خطاب میں کہا کہ آج پورے پاکستان کے مراقبہ ہال اور باہر ممالک کے مراقبہ ہال میں یہ پروگرام کیے جارہےہیں ۔
رحمانی طرز فکر کو اپنے اندر راسخ کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اس کا جواب کچھ یوں ہے.کسی طرز فکر کو اپنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے اس مخصوص طرز فکر کو قبول کیا جائے۔ پھر طرز فکر والی مخصوص ہستی سے ایسا تعلق قائم کر لیا جائے جو فریقین کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دے۔ یہ تعلق اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب طرز فکر حاصل کرنے والا اس شخص کے عادات و اطوار کو اپنی عادت و اطوار بنائے اور جس شخص کی طرز فکر حاصل کرنا مقصود ہے وہ بھی دوسرے آدمی کو اپنا قرب عطا کرے۔ اور اس کو اپنی جان کا ایک حصہ سمجھے۔ تصوف میں طرز فکر حاصل کرنے کا اصطلاحی نام نسبت ہے۔ نسبت میں سب سے پہلی نسبت روحانی استاد ہے۔ یعنی روحانی استاد کے اندر کام کرنے والی طرز فکر اس کا مزاج، اس کی طبیعت اور اس کے اندر کام کرنے والی روشنیاں روحانی شاگرد کے اندر منتقل ہو جائیں۔ جب یہ روشنیاں پوری طرح منتقل ہو جاتی ہیں تو اس نسبت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔
مزید مقررین نے کہا،ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے اس مقصد کو سمجنے کے لئے ہمیں قرآن پاک سے رجوع کرنا پڑے گا قرآن ایک واحد ایسی کتاب ہے جسکو سمجھ کر اس پر تفکر کرنے سے ہم بامقصد زندگی گزار سکتے ہیں ہمیں فرقے واریت سے نجات پانا ہوگی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کے رکھو کے پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا روحانی تعلیمات ایک دوسرے سے محبت اور ایثار کا درس دیتی ہیں حضور علیہ الصلوات واسلام کی سیرت طیبہ کا مطالعہ ہمیں آدمی سے انسان بنے کا درس دیتی ہے انسان کی شخصیت معاشرے کے لیے بہترین نمونہ بن جائے۔
آمین ثما امین ۔ لندن مراقبہ ہال کے پرگرام کی خاص بات پہلی بار چھوٹے بچے و بچیوں نے عرس مبارک کو ترتیب دیا، نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم، روباعیات، بیانات،صلات و سلام، دعا اور آخر میں بچوں نے ہی مراقبہ بھی کروایا ۔
اس طرح بچوں کو آگے بڑھانے کے لیے یہ اھم قدم تھا ۔سب نے بچوں کی اس کوشش کو سرہا اور داد دی اور ۔ لندن مراقبہ ہال کے انچارج محمد علی شاہ عظیمی صاحب کو اس کاوش میں کامیابی پر سب نے دل کی اتھا گہرائیوں سے مبارکباد دی۔
پرگرام کے آخر میں محمد علی شاہ عظیمی صاحب نے سب مہمانوں کا عرس مبارک میں شرکت کرنے کا شکریہ ادا کیا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام سلسلہ عظمیہ کے بہن بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ بچوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کیا کریں۔اس طرح بچوں میں اس طرح کے پرگرام کرنے میں مہبت اور آگہی پیدہ ہو گی ۔

Comments (0)
Add Comment