شیری رحمن سب سے آگے

تحریر مظہر برلاس

بدھ کی شام بڑی اہم تھی، اسلام آباد میں ایک افطار ڈنر ایسا تھا جس میں پاکستانی پارلیمنٹرینز کے علاوہ غیر ملکی سفیروں کی بڑی تعداد شریک تھی، اس بڑی تعداد میں بھی زیادہ تعداد مغربی ملکوں کے سفیروں کی تھی۔ اس افطار ڈنر کا اہتمام پارلیمنٹ ہائوس میں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمٰن نے کر رکھا تھا۔ شیری رحمٰن اپنے شوہر ندیم حسین کے ساتھ فرداً فرداً مہمانوں سے ملیں۔ افطاری سے پہلے ایک ہی تقریر تھی اور یہ تقریر شیری رحمٰن کی تھی۔ یہ تقریر دراصل پاکستان کا مقدمہ تھا، مقدمے کی پیش کار نے انتہائی مہارت کے ساتھ جناحؒ کے پاکستان کی تصویر پیش کی۔ جب یہ مختصر اور جامع تقریر ہو رہی تھی تو سفارت کاروں کو پتہ چل رہا تھا کہ ایک ماہر سفارت کار بول رہی ہے۔ ایک ایسی سیاستدان جسے پاکستان سے بے پناہ محبت ہے، یہ محبت پوری تقریر میں نظر آئی، دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے ملک کی بہترین وکالت کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے تمام تر قربانیوں کو گنوایا۔ انہوں نے مغربی سفارت کاروں کو بتایا کہ کس طرح ریاست پاکستان دہشت گردی کے خلاف ہر محاذ پر لڑ رہی ہے، کس طرح ہماری افواج کے بہادر سپوت قربانیاں دے رہے ہیں اور کس طرح ہماری قوم اپنی بہادر افواج کے ساتھ اس جنگ میں کھڑی ہے۔ تقریب میں موجود ایک سفارت کار نے گپ شپ لگاتے ہوئے شیری رحمٰن کی
تقریر کی بڑی تعریف کی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا یہ تقریر آپ کو بھی بہت اچھی لگی ہے؟ سفارت کار نے بسنتی رنگ میں ملبوس شیری رحمٰن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے کسی اور پاکستانی سیاستدان کو پاکستان کا مقدمہ اتنے عمدہ انداز میں پیش کرتے نہیں دیکھا، شیری رحمٰن نے واقعتاً حیران کن حد تک متاثر کن تقریر کی ہے۔ ‘‘ خواتین و حضرات! یہ کام حکومت بھی کر سکتی تھی، یہ کام حکومت کا کوئی وزیر بھی کر سکتا تھا، اسپیکر قومی اسمبلی بھی کر سکتا تھا، وزیر خارجہ بھی کر سکتا تھا مگر شاید حکومتی شخصیات کو ایسا سوچنے کی فرصت نہیں۔ انہیں پاکستان کے مقدمے سے زیادہ شاید اپنے مقدمے عزیز ہیں، موجودہ حکومت پاکستان کا مقدمہ بیرونی دنیا میں کیا لڑتی، اس کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ حکومت نے پہلے چار سال تو وزیر خارجہ کے بغیر ہی گزار دیئے، چار سال بعد جن لوگوں کو خارجہ امور کی وزارت سونپی گئی انہیں بین الاقوامی معاملات پر مہارت ہی نہیں ہے۔ ایک وزیر صاحب نااہل ہو کر گھر چلے گئے تو اب ان کی جگہ پہلوانوں کے شہر سے نئے آ گئے۔ 2013ء کے دھاندلی زدہ الیکشن میں بننے والی حکومت نے پاکستان کا مقدمہ کہیں نہیں لڑا، پانی کا مقدمہ بھی ہار گئی، اس دوران پاکستان کو بنجر بنانے کا کھیل جاری رہا۔ دشمن ملک سے تجارت کر کے پاکستانی کسان کو غربت کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا۔ آخری دن تک اقتدار سے چپکے رہنے کی خواہاں بشکریہ روزنامہ جنگ

Comments (0)
Add Comment