قصور میں قصور کس کا؟۔۔۔۔
تحریر ۔۔چوہدری رستم اجنالہ
آج مےڈےاپر اےک اور المناک واقعہ کی خبر سنی تو دل ہل گےا اور انکھوں سے بے اختےار آنسوجاری ہو گئے کہ زےنب کسی کی بےٹی تھی؟کےا اسکا کوئی بھائی ہے؟کےا اسکے باپ کی جگہ پر اپنے اپ کو کون رکھ کر سوچ رہا ہے کہ زےنب ساڑھے چھ سال کی گڑےا جےسی بےٹی کس کی درندگی کا نشانہ بنی جن لوگوں نے درندگی کا مظاہرہ کےا ہے کےا وہ انسان ہےں؟کےا وہ انسان کہلانے کے حقدار ہےں؟سچ تو ےہ ہے کہ انکو حےوان کہنے سے حےوانوں کی بھی توہےن ہو گی ۔مےری نظر مےں سے کئی وڈےو گذری ہےں جس مےں جانور دوسرے جانورں کی جان بچاتے ہےں کےا آج کا درندہ نما انسان کہلانے والا ان جانورں سے بد تر نہےں ہے؟درندوں سے بڑ کر درندگی کی لعنت بھی انکے حصے مےں ہی آنی تھی جو خود کو انسان کہتے ہےںلعنتی درندو نہ عمر کا خےال کےانہ ہی مسلمان ہونے کاتم کو نہ اسکے مجبور باپ کا خےال آےا نہ ہی اسکی ماں کی مامتا کا۔مسلمان ہونا تو دور کی بات کاش اسوقت تم کو انسان ہونے کا ہی خےال آ جاتا۔لمحہ فکرےہ تو ےہ ہے کہ قصور مےںدرندگی ہونے پر قصور کس کا ہے؟مجھے ڈرہے ہمےشہ کی طرح اس دفع بھی قصور کسی کا ثابت نہےں ہو گا ۔قصوروار کا کوئی تعےن نہےں ہو پائے گا۔اےک بار پھر بچی کے انصاف کی دوہائی دےتے والدےن کو لولی پاپ دے دےا جائے گا انکو انصاف دلانے کی ےقےن دہانےاں کروائی جائےں گی انصاف دلانے کے دلاسے دے کر انکو خاموش کروا دےا جائے گا۔اگر ذےادتی کے بعد قتل کرنے والے پہلے سات واقعات مےں کسی کو سزا ملی ہوتی تو آج زےنب کی لاش ہم سے انصاف کا تقاضہ کر رہی ہوتی۔کےا اس باپ کو انصاف ملے گا اس والد کو؟ جس کی پھول جےسی زےنب تھی جس کو اسکا والد دےکھتا ہو گا تو اسکو تھکاوٹ کا احساس بھی نہ ہوتا ہوگا۔انصاف ملے گا اسکی ماں کو؟جس کی گود کی زےنت زےنب کو چھےن لےا گےا جس کی گود اجاڑ دی گئی۔انصاف ملے گا اس بھائی کو؟ جس کے ساتھ زےنب ہمےشہ کھےلتی ہو گی۔کےا اس معاشرے مےں انصاف کی امےد ہے؟جس مےں کئی زےنب جےسے پھول کھلنے سے پہلے ہی توڑکر کچرے کے ڈھےرپر پھےنک دےے گئے اس مےں قصور ہے کس کا؟ان بے حص سےاستدانوں کا؟جن کو کرسی عزےز ہے زےنب جےسے پھول نہےںےا اس بے حص عوام کا؟ےا پھر اس ظالم نظام کا؟جس کو ہم نے آج ےک نہ بدلا ہے نہ ہی بدلنا چاہتے ہےں خدا راہ اب اس واقع مےں قصور وار کو قصور مےں قصور وار ٹھہرا کر سر عام عبرت کا نشان بنا دو اگر چاہتے ہو کہ آئندہ کوئی زےنب نہ بنے اگر پاکستان کی زےنب اپنی زےنب کو بچانا ہے تو بدل دو ےہ نظام۔ پاکستان کا ہر شخص زےنب کی بےٹی دےکھے اسکے باپ کو اپنے بےٹی کا باپ سمجھ کر سوچے اسکی ماں کو اپنی مامتا کے ترازو مےں تولے ۔لے آﺅ وہ نظام جو کہتا ہے قتل کی سزا قتل ہے قصورکے قاتل کو سر عام قصور مےں ہی لٹکا دوپاکستان کے عوام آج سے ارادہ کر لو اب چہرہ نہےں نظام بدلنا ہے کوئی اےک شخص نہےں تبدےل نہےں کرنا بلکہ پورا نظام بدل دےنا ہے تب ہی ہماری پاکستان کی زےنب ہماری بےٹےاںمحفوظ ہونگی ان ظالموں سے ۔اگر آب بھی ہم نہ سمجھے تو پھر انتظار کرنا کہ کب ہماری تمھاری بیٹی ہماری تمھاری بہن تمھاری بےوی ۔بہو زےنب بنتی ہےں۔۔۔۔۔۔