مسلم حکمرانوں کا انصاف
تحریر :چوہدری رستم اجنالہ
پاکستان میں کچھ دن سے اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں خبریں سن کر دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے کہ ہمارے پاکستان کو کس کی نظر کھا گئی ہے ہمارا پاکستان تو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اسی لیے اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا ہے لیکن اس میں ابھی تک اسلامی قوانین نہیں بنائے جا سکے۔ سیالکوٹ میں ایک ماں بیٹے کے قتل کاانصاف لینے نکلی تھی کئی سال عدالتوں میں ذلیل و خوار ہونے کے بعد اس کے بیٹے کا قاتلوں کو بری کر دیا گیا تو اس ماں سے رہا نہ گیا تو اس نے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے بیٹے کے قاتل کو قتل کر دیا ۔نقیب اللہ کا باپ عدالتوں میں انصاف کی جنگ لڑتے لڑتے خود زندگی کی بازی ہار گیا سانحہ ساہیوال میں شہریوں کو قتل کرنے والوں کو بھی کوئی سزا نہیں دی جا سکی پانچ دن سے کراچی سے اغوا ہونے والی لڑکی کا ابھی تک پتا نہیں چلایا جا سکا ۔سندھ میں تیرہ سال کی ہستی کھیلتی بچی سما گل کو جرگہ نے سنگسار کر کہ اس کی قبر کو بھی پھانسی دی ہے ۔والی بال کا بے تاج بادشاہ محسن فاروق قتل ہو گیا دکھیاری ماں رو رو کر لخت جگر کے قتل کا انصاف مانگ رہی ہے حکمرانوں سے۔ ہمارا معاشرہ کس طرف چل رہا ہے ؟پاکستان میں لڑکیاں روڈوں پر اجتجاج کر رہی ہیں کہ ہمارے حقوق دیے جائیں ہمارا جسم ہماری مرضی کے نعرے لگ رہے ہیں کچھ دن سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر نظر آرہی ہی جس میں کچھ لڑکیاں ایک لڑکے کو رسی سے باند کر کتے کی طرح چلا رہی ہیں اور دارالامان میں بچیوں کو وزیروں کے حوالے کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے اور اجکل یہ خبر بھی بہت زیادہ میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے ۔سکولوں میں جنسی ہراسگی کے بچاو کے لیے اس کی تعلیم دینے کی باتیں ہو رہی ہیں یہ سارے واقعات پچلے چند دونوں کے بیان کر رہا ہوں ہمارے حکمران تو ہمارے اس پیارے ملک پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کےدعوے دار تو ہیں۔ لیکن کیا ریاست مدینہ میں یہ سب کچھ ہوتا تھا؟ کیا یہ ہونا ریاست مدینہ میں ممکن تھا؟کیا اسلامی ریاست میں ان جرائم کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟انصاف کا نہ ہونا ریاست مدینہ میں تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟مسلمان حکمران کیسے تھے ایک مثال پیش کرتا ہوں ایک مسلم بادشاہ تھا ایک بار بھیس بدل کر حالات کا جائزہ لینے نکلا تو ایک غریب آدمی سے ملاقات ہوئی جو کہ رہا تھا کہ بادشاہ کو میں اللہ کی بار گاہ میں پکڑوں گا کہ میں بادشاہ کے محل کے قریب رہتا ہوں اور بادشاہ میرے حالات سے بے خبر ہے اور انصاف بھی نہیں کر رہا وہ غریب جس سے باتیں کر رہا تھا وہ دراصل بادشاہ ہی تھا جو بھیس بدل کر اس سے باتیں کر رہا تھا بادشاہ نے اسکا پتا لیا اور چلا گیا پھر دربار میں بادشاہ نے اس غریب آدمی کو بلایا آور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے کیا انصاف نہیں ہو رہا تمھارے ساتھ؟ وہ غریب آدمی بولا بادشاہ رات کو میرے گھر میں ایک بندہ اتا ہے اور میری بیٹی سے بد فعلی کرتا ہے بادشاہ نے اس کو کہا کہ اب جب بھی وہ بندہ تمھارے گھر آئے تو تم مجھے بتانا اس ساتھ ہی بادشاہ نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ جب بھی یہ بندہ محل میں آئے تو میرے پاس بھیج دیا جائے چاہے میں نماز میں ہی کیوں نہ ہوں کچھ دن بعد وہ غریب آدمی محل میں آیا تو بادشاہ کو بتایا کہ وہ بندہ میرے گھر میں موجود ہے بادشاہ نے اپنی تلوار لی اور اس کے ساتھ چل پڑا بادشاہ نے اس غریب سے کہا کہ تم گھر میں داخل ہوتے ہی گھر کا چراغ بجھا دینا وہ غریب گھر میں داخل ہوا اور چراغ بجھا دیا بادشاہ نے آگے بڑھ کر تلوار کا وار کر کہ اس مجرم شخص کا سر قلم کر دیا جو اس غریب کے گھر اتا تھا سر قلم کرنے کے بعد بادشاہ نے اس غریب آدمی کو کہا کہ چراغ جلاؤ جب چراغ جلایا گیا تو بادشاہ سجدے میں گر گیا جب سجدہ ختم کیا تو اس غریب کو کہا کہ تمھارے گھر میں کچھ کھانے کو ہے اس نے کہا کہ سوکھی روٹی ہے اور پینے کے لیے پانی بادشاہ نے کھا لاؤ وہ غریب روٹی لایا تو بادشادہ نے وہ سوکھی روٹی کھائی اور شکر ادا کیا غریب آدمی بادشاہ سے پوچھنے لگا حضور یہ سارا معاملہ سمجھ نہیں ایا گھر میں داخل ہونے سے پہلے چراغ بجھانے کا کہا پھراس کو سزا دینے کے بعد چراغ جلایا تو اپ نے سجدہ کیا اور رو رو کر شکر ادا کیا پھر بادشاہ ہو کر میرے غریب کے گھر سے سوکھی روٹی کھائی تو بادشاہ کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ چراغ اس لیے بجھانے کا بولا تھا کہ میری سلطنت میں اتنی جرات میرا بیٹا ہی کر سکتا ہے کہ وہ اتنا بڑا جرم کرے تو میں نے سوچا اگر میرا بیٹا ہوا مجرم تو ۔اس کو دیکھ کر کہیں باپ کی شفقت غالب نہ آ جائے اور میری تلوار انصاف کرنے سے کہیں رک نہ جائے اور جب اسکو سزا دینے کے بعد چراغ جلایا تو دیکھا کہ وہ میرا بیٹا نہیں تھا تو سجدہ شکر ادا کیا اور تم کو روٹی کا اس لیے پوچھا کہ جس دن سے تم نے مجھے یہ بات بتائی تھی اس دن سی میں نے قسم کھائی کہ اس وقت تک کچھ نہیں کھاؤں گا جب تک تم کو انصاف نہ دلا دوں ہمارے حکمران تو ایسے ہوتے تھے اور یہ ہوتا ہے ریاست مدینہ کا ماڈل اور دوسری طرف ہمارے حکمران بھی ریاست مدینہ کے دعوے دار تو ہیں لیکن ہمارے سیاستدان اور حکمران کہتے ہیں کہ وعدے معاہدے کوئی آسمانی صحیفے تو نہیں ہوتے ہیں ۔کوئی کہتا ہے جب تک جھوٹ نہ بولے یعنی یو ٹرن نہ لیے جائیں اس وقت تک کوئی بڑا لیڈر نہیں بن سکتا اور ہمارے حکمران غریب آدمی کو تو انسان ہی نہیں سمجھتےاپنی کرسی کے لیے غریب لوگوں بلکہ حاملہ عورتوں پر بھی گولیاں چلانے سے گریز نہیں کرتے اور ہمارے ملک میں اتنے جرم اغوا قتل چوری ریپ ناانصافی ہر روز کوئی نہ کوئی نیا نیا جرم سامنا آ جاتاہے تو ہم نے اج ان جرائم پر قابو پانے کے لیے کیا اقدام کیے ہیں ؟ پہلے ہمارے حکمرانوں کو بھیس بدل کر جرائم کا پتا چلانا پڑتا تھا کہ انصاف کر سکیں اور اج گھر بیٹھے ہی جرائم کا پتا چل رہا ہے بلکہ مجرم کا بھی پتا چل جاتا ہے تو پھر بھی انصاف نہیں ہو پا رہا پاکستان میں جرائم اغوا قتل چوری ریپ کے بعد کمسن بچوں کا قتل عام ہیں اور انصاف نہ ہونے کی وجہ سے ان جرائم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے میں دعوے سےکہتا ہوں پاکستان میں اسلامی قانون کے مطابق سزا دینا شروع کر دیں تو دیکھیں جرم کیسے ختم نہیں ہوتے۔اے اللہ ہمارے ملک کو سہی معنوں میں ریاست مدینہ بنا دے اور اُسی طرح کے حکمران عطا فرما دے جس طرح کے ریاست مدینہ کے حکمران تھے اللہ ہمارے پاکستان کو سچی اسلامی ریاست بنا اور پاکستان کو دیندار دیانتدار حکمران عطا فرما آمین