مسلم لیگ ن میں بڑی ٹوٹ پھوٹ کا امکان

مسلم لیگ ن میں ہونے والی گروہ بندی کے پیش نظر ارکان اسمبلی اور دیگر عہدیداروں نے پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جبکہ کئی ارکان اسمبلی اور سینیٹرز نے بیرون ملک جانے کا پروگرام بنا لیا تا کہ موجودہ حالات میں پارٹی گروپنگ اور گرفتاریوں سے بچا جا سکے ۔ اس میں اہم کردار مریم نواز اور شہباز شریف کے مابین بیانیے کا فرق بھی ہے جس نے ارکان اسمبلی اور پارٹی عہدیداران کو کافی حد تک کنفیوژن کا شکار کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی ایک طرف کشمکش کا شکار ہیں کہ وہ کس طرف جائیں ، کس کو خوش رکھیں اور کس سے دور ہوں۔ کئی ارکان اسمبلی تو حال ہی میں ہونے والی گرفتاریوں سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ انہوں نے موجودہ صورتحال میں خاص طور پر رانا ثنا اﷲ کی گرفتاری کے بعد کچھ عرصہ کے لیے بیرون ملک جانے پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ پارٹی صدر شہباز شریف کی جانب سے طلب کیے گئے اجلاس میں بھی مریم نواز کو ایڈوائزری کمیٹی کا ممبر نہ ہونے کے باجود بھی آنے کا کہا گیا تھا لیکن مریم نواز نہیں آئیں جس سے مزید چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں ۔ چچا بھتیجی کے اس آپسی تناؤ نے پارٹی رہنماؤں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مریم نواز چاہتی تھیں کہ رانا ثنا اﷲ کے معاملے پر حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی مہم کی کال دی جائے اور سخت ترین احتجاج کر کے اپنی پاور بھی شو کی جائے اور حکومت کو مزید ٹف ٹائم دیا جائے لیکن پارٹی صدر شہباز شریف اور ان کے قریبی رفقا جارحانہ احتجا ج کے موڈ میں نہیں تھے ۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے اندر فارورڈ بلاک کے حوالے سے سخت رویہ اپنانے کے حوالے سے بھی دو رائے پیدا ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے ن لیگ کے اندر باغیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور کچھ عرصہ بعد فارورڈ بلاک کا اعلان کر دیا جائے گا ۔ اس کے لیے 52 ارکان کی تعداد پوری کی جا رہی ہے کیونکہ 42 ارکان کی تعداد کم از کم فارورڈ بلاک کے لیے ہوتو ارکان پر نااہلی کی تلوار ختم ہو جاتی ہے ۔ ذرائع کے مطابقمسلم لیگ ن کے اجلاس میں ایک اہم رہنما نے کہا کہ رانا ثنا اﷲ کی گرفتاری پر کم از کم فیصل آباد ہی بند ہو جانا چاہئیے تھا اب اگر ہم کوئی کال دیتے ہیں اور اس میں کامیابی نہیں ملتی تو بچی بچائی عزت ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں کئی ایسے ارکان بھی ہیں جو صرف اپنی عزت اور سیاست بچانے کے لیے مسلم لیگ ن چھوڑنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ پارٹی میں رہ کر مریم نواز اور شہباز شریف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے اور خود کو مشکل میں ڈالنے سے بہتر یہی ہے کہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی جائے اور اپنی بچی کُھچی عزت اور سیاست کو بچا لیا جائے۔

Comments (0)
Add Comment