Mohammad Ali Raza
محمد علی رضا
پاکستان اور امریکا کے تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ماضی کی اکثر مقتدر طاقتوں اور حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات واقتدار کو طول دینے اور صرف اپنی ہی انا و بقا کے لیے، امریکا کو وہ تمام مراعات اور رعایت دیں جس کا خمیازہ آج تک قوم معاشی بدحالی، ابتری اور اندرونی جارحیت کے طور پر بھگت رہی ہے۔ انہی میں سے ایک “مرد مومن ” امریکی ایما و سرپرستی میں ، سوویت یونین کا جن قابو کرنے کے لیے ، پرائی جنگ اپنے گھر لائے اور پھر سرد جنگ کے خاتمے تک، بلا شرکت غیرے، منصب اقتدار اپنے “بوٹوں “کے نیچے دبائے رکھا۔
9/11 کے بعد ،جب ایک بار پھر امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی توامریکا کی خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی ، کے سامنے ایک “رشک کمر” موجود تھا،جس نے ایک فون کال پر ، قومی مفاد، ملکی استحکام اور ریاستی خود مختاری کو پس پشت ڈالتے ہوئے، امریکی بندوق کے لیے اپنا کندھا حاضر کر دیا۔
(جاری ہے)
اس ضمن میں معروف امریکی مصنف باب وڈورڈز کی کتاب Bush at war بہت اہمیت کی حامل ہے جس میں باب وڈ ورڈ زلکھتا ہے کہ کولن پاؤل (سابق امریکی وزیر خارجہ) نے جب ہمارے ”رشک کمر“ کو کال کی تو 7 مطالبات پیش کیے۔
اس کا اندازہ تھا کہ سات میں سے کوئی ایک دو ہی “موصوف” تسلیم کریں گے، لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب دوسری طرف موجود “صاحب” نے تمام کے تمام مطالبات بلا چوں چراں تسلیم کر لیے۔ اس وقت وائٹ ہاؤس کے “سیچیوئیشن ہال” میں امریکی قومی سلامتی کے متعلق اہم اجلاس ہو رہا تھا ، جس کی صدارت بش کررہے تھے، کولن پاؤل بھاگتے ہوئے میٹنگ میں جا پہنچے اور جب یہ خبر تمام سرکردہ امریکی ارکان تک پہنچائی تو وہ بھی ہماری “کرشماتی قیادت” کی بصیرت اور تدبر پر ورطہ حیرت میں چلے گئے۔
اقتدار ، جھوٹے وقار و انا کی بقا کے لیے اس خود غرضانہ ، احمقانہ اور بزدلانہ فیصلے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ریاست گزشتہ 17 سالوں میں 80 ہزار شہادتوں کے ساتھ 10374 ارب کا نقصان بھی برداشت کر رہی ہے۔
عالمی سطح پر بین االاقوامی تعلقات کی بنیاد اور محور اس بات پر ہوتا ہے کہ دو ممالک ایک دوسرے کو باہمی کیا فائدہ دے سکتے ہیں مگر ماضی کا غیر جانبدار تجزیہ یہ عیاں کرتا ہے کہ پاک امریکا تعلقات کا رشتہ برابری اور باہمی مفاد کی بجائے، حاکم اور محکوم کا ہی رہا ہے۔
ہم نے امریکی مفاد کے لیے ہر سطح پر قربانیاں دیں، کئی جنگیں لڑیں، CEATO اور SENTO کے معاہدے کیے، سووت یونین سے ٹکر لی، قریبی دوست ممالک سے تعلقات خراب کیے، اپنے معیشت تباہ کی، افغان جنگ کو اپنے گھر لے آئے، ہزاروں شہادتوں کی قربانیاں دیں، لیکن بدلے میں کبھی بھی پاکستان کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا گیا۔
نئی عمرانی حکومت کو بھی اس ضمن میں وہی مسائل درپیش ہیں جو سابقہ حکومتوں کو رہے مگر ایک بات واضح ہے کہ اس بار قومی مفاد، ملکی استحکام اور ریاستی وقار کے لیے سول ملٹری ادارے ایک ساتھ ہیں۔
وزیر اعظم نے امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد پر واضح کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات برابری کی سطح پر قائم کریں گے ۔ یقینا اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کے مخمصانہ رویے کے بعد، دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ جس کی ایک چھوٹی سی جھلک اس وقت دیکھنے میں آئی جب امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو ایک روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے ، جہاں ان کے استقبال کے لیے نہ کوئی ریڈ کارپٹ تھا نہ ہی کوئی معمول کا پروٹوکول۔
ٹی وی (T V) سکرینوں کے ذریعے جو منظر کشی تھی وہ تو کچھ ایسے ہی تھی کہ
حسابِ ترکِ تعلق تمام میں نے کیا
شروع اس نے کیا، اختتام میں نے کیا
ما ضی میں، عموماً جب بھی کوئی امریکی مہمان وارد ہوتا تھا تو اس کے لیے، GHQ اور سول حکومت کے ساتھ ،الگ الگ ملاقات کا اہتمام کرایا جاتا تھا۔ اس بار یقینا یہ ایک مثبت پہلو سامنے آیا کہ پہلی بار سول ملٹری اورتمام اسٹیک ہولڈر، ایک بار ہی اکٹھے ملاقات کے لیے تیار ہوئے جو یقینا امریکی انتظامیہ کے لیے مثبت پیغام چھوڑے گا۔
پاک امریکا تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے افغانستان کا کردار بھی اہم ہے ۔ 17 سال کی جنگ کے بعد امریکہ افغانستان سے محفوظ راستہ چاہتا ہے جس کے لیے ایک بار پھر اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ نے امریکی ہم منصب کے سامنے حقیقت پسندانہ موقف واضح کیا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان کی مدد چاہتا ہے تو اسے بھی بھارت کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ افغانستان میں اپنا کردار محدود کرے۔
افغانستان میں امن کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کو بھارتی سازشی تھیوری سے ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔ جب تک بھارت ، امریکی ایما پر ،افغانستان میں اپنے 14 قونصل خانوں کے ذریعے کی جانے والی جارحیت اور اس کو پھیلانے والے عناصر کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتا، تب تک پاکستان بھی امریکی ” سیف سائیڈ ” کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گا
ہماری نئی حکومت کو سمجھنا ہو گا کہ جدید عالمی نظام میں کسی بھی ملک کا عالمی برادری ، خاص طور پر سرکردہ عالمی طاقتوں سے تعلقات بحال کیے بغیر رہنا ،تقریبا نا ممکن ہے ۔ ہمیں سنجیدہ سوچ کے ساتھ اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ پاکستان اور امریکا کےایک دوسرے کے ساتھ باہمی روابط ، امن و امان ، خطے کے استحکام اور علاقائی وابستگی کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔
اگر ہم اندرونی سطح پر مضبوط ہو جائیں، اتحادو یگانگت کی فضا کو قائم رکھیں، تمام اداروں کی مضبوطی اور باہمی روابط کو منضبط بنا لیں تو یقینا اس کے ذریعے بیرونی اور عالمی سطح پر درپیش چیلنجز کو نمٹا جا سکتا ہے ۔
اگر ہم امریکہ کے ساتھ نئے دور کا آغاز اور برابری کی سطح پر پیش رفت چاہتے ہیں تو ہمیں امریکی امداد کے سحر سے نکلناہو گا، ہمیں معاشی ڈھانچے کو مکمل ری سٹرکچر کرنا ہو گا تاکہ ہم امریکی امداد کے محتاج نہ رہیں۔
ہمیں “ایڈ ” کی بجائے” ٹریڈ” کی طرف اپنی سٹرٹیجی بنانا ہو گی تاکہ ہم خودانحصار ہو کر ” ڈو مور” کے جواب میں ” نو مور” کا جواب دے سکیں۔ موجودہ حکومت کو ملٹری اسٹبلیشمنٹ کی مکمل تائید حاصل ہے اوروہ بھی امریکی امداد سے چھٹکارے کے لیے تیار ہے ۔ اب حکومت اور قوم کو اس کے لیے تیار ہونا ہو گا۔ اگر محکوم قوم بنے رہے تو معاملات کبھی درست سمت میں نہیں آئیں گے۔ اس لیے