چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے وزیراعظم عمران خان کے زبانی حکم پر ہونے والا آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ روک دیا۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے آئی جی کی تبدیلی کی سمری عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کے زبانی احکامات پر تبادلہ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ تبادلے کی اصل وجہ کیا ہے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ خود عدالت کو حقائق بتائیں۔
سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ آئی جی کے تبادلے کا مسئلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے، وزیراعظم آفس آئی جی کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹبلشمنٹ کو کہا کہ کیوں نہ آپ کا بھی تبادلہ کر دیا جائے، کیا آپ کو کھلا اختیار ہے جو چاہیں کریں، وزیراعظم سے ہدایت لے کر جواب داخل کریں، کیا یہ نیا پاکستان آپ بنا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ روکتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کا نوٹیفکیشن معطل کردیا، جب کہ معاملے پر وفاقی حکومت سے بدھ تک جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ تبادلے کا حکم قانون کے مطابق نہیں جبکہ جائزہ لیا جائے گا تبادلہ بدنیتی پر مبنی تو نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک وزیر کی شکایات پر آئی جی کو تبدیل کیا گیا، آئی جی کی تبدیلی وزارت داخلہ کا کام تھا، کیا ذاتی خواہشات سے تبادلے ہوتے ہیں، کیا حکومت اس طرح افسران کے تبادلے کرتی ہے، عثمان بزدار والا کیس دہرایا جارہا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت آخر پولیس کیساتھ کیا کر رہی ہے، کیا غیر قانونی حکم نہ ماننے والے گھر جائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کو زبانی حکم دینے کی کیا جلدی تھی، کیا حکومت زبانی احکامات پر چل رہی ہے، پاکستان اس طرح نہیں چلے گا، جس کا جو دل کرے اپنی مرضی چلائے، ایسا نہیں ہوگا، اب پاکستان قانون کے مطابق چلنا ہے، زبردستی کے احکامات نہیں چلیں گے، وزیراعظم نے زبانی کہا اور تبادلہ کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی وجوہات پر آئی جی جیسے افسر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، ریاستی اداروں کو اس طرح کمزور اور ذلیل نہیں ہونے دیں گے، سنا ہے کسی وزیر یا سینیٹر کے بیٹے کا مسئلہ چل رہا تھا، کیا ملک میں قانون کی حکمرانی ایسے قائم ہوگی؟، لاہور میں بھی پولیس افسر کو تبدیل کیا گیا، پنجاب حکومت سے بھی تفصیلات لیکر آگاہ کریں، افسران کو اعتماد دینا چاہتے ہیں، اے ڈی خواجہ کیس میں عدالت واضح احکامات دے چکی ہے، حکومت کی من مرضی سے افسران کے تبادلے نہیں ہو سکتے، عدالت ایسی باتیں برداشت نہیں کرے گی۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا فون اٹینڈ نہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ سینیٹر اعظم سواتی کا اپنے فارم ہاوٴس کے قریب خیمہ بستی میں مقیم افراد سے تنازع چل رہا تھا۔ اعظم سواتی ان خیموں میں مقیم افراد کو بے دخل کرنے کے لیے مبینہ طور پر پولیس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔واضح رہے کہ اس سے قبل ڈی پی او پاک پتن کا بھی خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کی شکایت پر راتوں رات تبادلہ کردیا گیا تھا اور چیف جسٹس نے اس معاملے کا نوٹس لیا تھا۔ اس کے علاوہ آئی جی پنجاب طاہر خان کو بھی حکومت کے احکامات نہ ماننے پر عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔

Comments (0)
Add Comment