کلیدی عہدے پر کسی قادیانی کی تقرری کا جھگڑا
تحریر۔۔ابوبکر قدوسی
پچھلے دو دن سے سوشل میڈیا پر میاں عاطف کے حوالے سے زور دار بحث جاری ہے – ایک سے زاید آراء اس وقت گردش کر رہی ہیں – ایک گروہ قادیانی حضرات کو اس طرح کی ذمے داری تفویض کرنے پر نکتہ چیں ہے اور دوسرا گروہ ، جو تحریک انصاف کے غالی حامی ہیں ، اس معاملے میں حکومتی فیصلے کے دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے –
لیکن ٹہریے ! آپ سے ذرا ہٹ کے سوال ہے کہ کیا کوئی کمزور درجے کا مسلمان بھی ریاست اسرائیل کا وفادار ہو سکتا ہے ؟
اور کیا ریاست اسرائیل کسی ایسے کمزور درجے کے مسلمان کو اپنی ریاست میں کسی اہم ذمے داری پر مقرر کر سکتی ہے ؟
آپ میرے سوالات سے الجھیے مت ، بات ابھی کھل جائے گی – اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے کہ جو مذھب کے نام پر قائم ہوئی اور اپنے اس قیام کے لیے انہوں نے وہاں پہلے سے موجود مسلمان اکثریت سے ان کی زمینیں چھین لیں – نتیجہ یہ ہوا کہ ایک نفرت کی فصیل دونوں اقوام کے درمیان در آئی – اور اب ان کو خبر ہے کہ کوئی مسلمان ان کی ریاست کا کبھی بھی وفادار نہیں ہو سکتا –
قادیانیوں کی نظر میں آپ کی ریاست پاکستان نے ان پر اسی طرح ظلم کیا ہے – وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں بلکہ صرف خود کو ہی مسلمان سمجھتے ہیں – آپ نے قانون سازی کے ذریعے ان کی اس “شناخت” کو چھین لیا ہے – آپ ان کی نظر میں ظالم ہیں ، غاصب ہیں اور ان کا حق چھیننے والے ہیں -اس حد تک “ظلم ” آپ نے کیا کہ اس کے پیچھے لگ کے تمام کے تمام عالم اسلام نے بھی ان کو غیر مسلم قرار دے دیا –
اب آپ خود سوچئے کہ ایسا بندہ آپ کی ریاست سے کس طرح وفادار ہو سکتا ہے کہ جس کی نگاہ میں آپ اس کا عقیدہ چھیننے والے ، اس کی شناخت ختم کرنے والے اور ظالم ہیں –
جناب صرف یہی نہیں کہ وہ وفادار نہیں ہو گا بلکہ وہ آپ سے نفرت کرنے والا ہو گا – وہ آپ کے ملک ، ریاست اور قانون سے نفرت کرے گا – یہ ہوا تصویر کا ایک رخ – اب آپ کو ایک دوسری دنیا میں لیئے چلتے ہیں –
آپ مسلمان تو قادیانیت کے ظہور کے قریب سو سال بعد یہ قدم اٹھا پائے کہ ان کو غیر مسلم قرار دے دیا – خود مگر قادیانی حضرات اس تمام عرصے میں آپ کے بارے میں کس طرح سوچتے رہے ، کبھی یہ بھی دیکھا کیجئے –
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتے ہیں کہ جو میری دعوت (یعنی قادیانیت ) کو قبول نہیں کرتا اور تصدیق نہیں کرتا وہ سب کنجریوں کی اولاد ہیں –
اس طرح مرزا بشیر جو ان کے پہلے خلیفہ تھے انہوں نے بھی لکھا ہے کہ جو غلام احمد قادیانی پر ایمان نہیں لاتے وہ سب کافر ہیں اور ان سے کافروں والا سلوک کیا جائے گا –
آپ کو یاد ہو گا کہ سر ظفراللہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے – آپ ایک مذہبی اور راسخ العقیدہ قادیانی تھے – جب جناب محمد علی جناح فوت ہوئے تو آپ ایک طرف چپکے کھڑے رہے اور جناح صاحب کا جنازہ نہیں پڑھا- جب آپ سے پوچھا گیا کہ جناب یہ کیا ؟
تو رسان سے لہجے میں گویا ہوئے :
“آپ یوں جان لیجئے کہ ایک غیر مسلم نے مسلمان کا جنازہ نہیں پڑھا ، یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ ایک مسلمان نے کافر کا جنازہ نہیں پڑھا “
اسی طرح معروف قادیانی ایم ایم احمد کا معامله ہے – آپ پہلے اقتصادی منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیرمین تھے بعد ازاں صدر مملکت کے اقتصادی مشیر مقرر کیے گئے – اس حیثیت میں موصوف نے جن غلط پالیسیوں کے سبب ملک کو نقصان پہنچایا ان کا نتیجہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں شدت سے احساس محرومی پیدا ہو گیا – یہ کوئی فرضی قصہ نہیں بلکہ ایئر مارشل نور خان نے یہ سب ایک پریس کانفرنس میں بیان کیا – اور الزام لگایا کہ موصوف نے جان بوجھ کر ایسے فیصلے کروائے کہ جن کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا – جی ہاں یہ کسی مولوی کا الزام نہ تھا ایک ریٹائر آرمی چیف کا بیان تھا – بعض دوست بہت معصومیت سے کہتے ہیں کہ اب عاطف میاں بھی کون سا ملک کے فیصلے کریں گے – ان کو ان ایم ایم احمد کو یاد کر لینا چاہیے کہ کس طرح اقتصادی ماہر کی حیثیت سے بھی موصوف نے ملک پر تباہی لانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا
مزید آگے چلتے ہیں – جب ستر کی دہائی کے آغاز میں بھٹو دور میں قادیانیوں کو قانون سازی کے ذریعے کافر قرار دیا گیا تو یہ فیصلہ یوں ہی یک طرفہ نہیں ہو گیا تھا – بلکہ اس کے لیے قادیانیوں کو مکمل موقع دیا گیا کہ وہ آ کے اپنا موقف اسمبلی میں پیش کریں – تب کے خلیفہ مرزا ناصر احمد کو اسمبلی میں خطاب کی دعوت دی گئی – جب کہ آپ اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے – اور یہ بہت بڑی بات تھی – شائد ان کو تین دن مسلسل یہ موقعہ دیا گیا – اس میں کلائمکس تب آیا جب مرزا صاحب سے پوچھا گیا کہ :
حضرت کچھ آپ بھی بولیے ، کہ آپ کی نظر میں ہم مسلمان کیا ہیں ؟
اس پر مرزا صاحب کسی کرگس بے نشان کی طرح گویا ہووے کہ ان کی نظر میں یہاں موجود اراکین اسمبلی اور اس ملک کے غیر قادیانی عوام سب کے سب کافر ہیں –
ایوان ان کی بات سے گویا ساکت و جامد ہو گیا – اس کے بعد اسمبلی نے متفقہ طور پر ان کے عقائد کے سبب ان کو غیر مسلم قرار دیا –
آپ کو ڈاکٹر عبد السلام تو یاد ہوں گے ؟
ارے بھائی وہی فزکس میں نوبل ایوارڈ والے – جناب مذہبی اور پکے قادیانی تھے – جب قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا تو آپ نے احتجاجا پاکستان چھوڑ دیا – اس کے بعد آپ نے ہمیشہ اس ملک سے نفرت ہی کی – زاہد ملک کی کتاب میں آپ کی پاکستان کے ایٹمی پروگرام بارے مخبریوں کا خاصا ذکر ہے –
محمد متین خالد اس حوالے سے لکھتے ہیں :
“10 ستمبر 1974ء کو ڈاکٹر عبدالسلام نے وزیراعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ اس کی وجہ انھوں نے اس طرح بیان کی:
’’آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیہ (قادیانی) فرقے کا ایک رکن ہوں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کے متعلق جو آئینی ترمیم منظور کی ہے، مجھے اس سے زبردست اختلاف ہے۔ کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ کوئی شخص خالق اور مخلوق کے تعلق میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ میں قومی اسمبلی کے فیصلہ کو ہرگز تسلیم نہیں کرتا لیکن اب جبکہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے