ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ـــــ
آدرش
میرا ملک پاکستان جہاں ہم بستے ہیں ان کے کئی رنگ کئی ڈھنگ ہیں جو اس زمانے میں ناپید ہیں،
ہندوستان کے باطن سے جنم لینے والا مملکت خداد دادِ پاکستان شاید بنا ہی اس لئیے کہ یہاں سرمایہ دار جاگیر دار جرنل بیروکریٹ اور سامراج کے کاسہ لیس حکومت کریں، مذہب کے نام پر وجود میں آنے والا ہمارا یہ ملک ایک سامراج کا تحفہ تھا اپنے وفاداروں کیلئے، اور بعد میں ایک اور بڑے سامراج نے گود میں لیا اور ماشاءاللہ آج تک وہیں ہیں، اس ملک کے بنتے ہی ہمارے ملک میں جہموریت کی بات کرنا منع کر دیا گیا تھا، تب سے لیکر آج تک ہمارے اس ریاست میں جمہوریت کا نام لینا حقوق کی بات کرنا ممنوع ہی ہے، شروع سے ہی مضبوط وفاق کے نام پر جہموریت، ترقی پسند سوچ اور اپنے اپنے حقوق کی نام لیواؤں کو دیوار سے لگا دیا گیا، چاہے وہ بنگلہ دیش کے رہنما ہوں یا سندھ، پختون یا بلوچ رہنما ہوں، نہ جہموریت کے نام لیواؤں کو آگے آنے دیا گیا اور نہ ہی ترقی پسند سوچ کو پنپنے نہیں دیا گیا، یہاں وہ لوگ غدار ٹھہرائے جاتے ہیں جو اپنے قوم اپنے لوگوں غریبوں مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں ـ
پاکستان کا اصل المیہ یہ رہا کہ شروع دن سے یہاں کے فیصلہ ساز قوتیں ہمیشہ وہ رہیں جن کا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں رہا، اور نہ وہ کسی کو جواب دے تھے نہ ہی آج کے دن تک وہ جواب دہی کے لیئے تیار ہیں، اس ریاست کے فیصلے بند کمروں میں چند لوگ ہی کرتے آئے ہیں ـ
تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، یہاں حقیقی عوامی سیاسی طاقتوں کو کچلنے کے لیئے ون یونٹ نظام لاگو کیا گیا تاکہ اکثریت بنگلہ دیش کا استحصال کیا جا سکے، چوں کہ وہاں قوم پرست جو ترقی پسند رہنما تھے اس لیئے انہیں غدار قرار دے کر دیوار سے لگایا گیا، ون یونٹ بنانے کی پالیسی عوامی نہیں تھی اس لیئے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت ہوئی، بنگلہ دیش کے عوامی قیادت کے ساتھ سندھ اور بلوچستان میں بھی ترقی پسند اور قوم پرست لوگ موجود تھے، جنہیں ون یونٹ کے ثمرات کا اندازہ تھا، جو اپنے صوبے اور اپنے شناخت کے حوالے سے اپنے قومی بیانیئیے پہ یقین رکھتے تھے، پنجاب ترقی پسند ادیب اور عوامی رہنما بھی ون یونٹ کے خلاف تھےـ ون یونٹ بنانے کے ساتھ دوسرے غیر جہموری اور غیر انسانی فیصلوں کے بدولت مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نفروتوں کے وسیح خلیج پیدا ہوئی، اس کے ساتھ فوجی آپریشن کے ذریعے عوامی آوازوں کے کچلنے بنگلہ دیش میں قتل عام کرنے کے نتیجے میں اکثریت بنگالی بھائیوں نے جان چھڑانے میں عافیت سمجھی .بنگلہ دیش بنا کیا ہوا کچھ نہیں ، یہاں کے جاگیردار سرمایہ دار اور جنرل خوش ہوئے چلو جان چھوٹی ـ
بنگلہ دیش کے ثانحے کے بعد بھٹو تخت نشین ہوا، بھٹو جو جرنل ایوب کے کابینے میں شامل ایک ایسا وزیر تھا جو ذہنی طور پر جاگیر دار تھا، جس نے جرنل ایوب کے ساتھ اختلاف کی بنیاد پر کابینہ سے استیفیٰ دے کر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، اس کی بھی ایک عجیب داستان ہے، ترقی پسند شوشلسٹ دوستوں نے بھٹو کو ایک عوامی لیڈر بنایا مگر اسی بھٹو نے اقتدار میں آ کر اپنے ہی ان محسونوں کے پیٹ پر چھرا گھونپ دیا، اقتدار میں آ کر اپنے شوشلسٹ نعرے سے ہی عملاََ دست بردار ہو گیا، خیر قصہ مختصر اس وقت ایک موقع تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو ختم کر کے اسے سیاسی طاقت کے تابع کیا جاتا اس وقت ایک موقعہ تھا کہ پاکستان کے فیصلے بند کمروں سے منتخب ایوانوں کے اختیار میں دیا جاتا، اس وقت ایک موقعہ تھا کہ بنگلہ دیش کے ثانحے سے سبق سیکھ کر اس ملک کو حقیقی جہموری قوت بنا دیا جاتا مگر افسوس پاکستان کے سیاسی قوتوں نے اپنے مفاد پرستی اور موقعہ پرست بن کر یہ موقعہ ہاتھ سے جانے دیا بلکہ فوج کو اور طاقت ور بنا دیا، بھٹو کے دور میں خدا خدا کر کے آئین ملا، مگر اسی آئین میں پہلی ترمیم بھٹو نے کی، بھٹو کے دور میں صوبوں کو شناخت ملی، مگر اسی بھٹو کے دور میں پختون خواہ اور بلوچستان کے منتخب صوبائی اسیمبلیوں کو برطرف کر کے گورنر راج لاگو کیا گیا، 1973 سے لیکر 1977 تک بلوچستان میں فوجی آپریشن ذریعے بلوچوں کا قتل عام ہوا، تاریخ میں سب کچھ عیاں ہے اور وقت نے ثابت کیا کہ ایک جاگیردار اور انا پرست انسان اگر لیڈر بن جائے تو اپنے انا ضد اور تکبر سے بہت ساری غلطیاں کرتا ہے اور انہیں غلطیوں کو دہراتا رہتا ہے، بھٹو صاحب نے وہی غلطیاں کی اور انہی غلطیوں کی سزا بھی پائی، اور ایک آمر نے اسے اقتدار میں آ کر تختہ دار پر لٹا دیا جو بھٹو کا اپنا منتخب کردا تھا، جرنل ضیاء بہت ہی چاپلوس اور حد سے زیادہ مکار ـ بہت سارے بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ بھٹو نے مقامی آقاؤں اور امریکی سامراج کو آنکھیں دکھائی تو بھٹو کو عبرت کا نشان بنایا گیا اور پھانسی دے کر ایک شہید دے دیا، یہ بھی سچ ہے کہ بھٹو جب تک طاقت ور تھا تو اس نے بہت سارے ایسے کام کیئے جو یہاں کے سپریم طاقتوں اور امریکی سامراج پہ گراں تھے، خیر یہ بھی سندھ کی قسمت کہ بھٹو کی شھادت کے بھٹو کے بیٹوں اور بیٹی کو شہید کر کے یہ پیغام واضح کر دیا گیا کہ یہاں کے اصل حکمرانوں کی نظر میں سیاسی لیڈرشپ کی کیا اہمیت ہے چاہے وہ لیڈر برائے نام ہی کیوں نہ ہو، آج تک کا سچ یہی ہے کہ یہاں عوام کی بھلائی کرنے کی باتیں ممنوع ہی ہیں اس کے بارے میں عملی قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے ـ
بھٹو کو روند کر جو سفاک جرنل ضیاء آیا، اس جرنل ضیاء نے اپنے اقتدار کو طول دینے لیئے مذہب کا استعمال شروع کیا، اس نے پورے ریاست کو ایک فاشٹ انتہا پسند مذہبی آگ میں جھونکنے کے بنیاد رکھی، وہ آیا تھا مسلمانوں کو مسلمان کر نے، اور کیا خوب مسلمان کیا، جو تھا اسی سی بھی محروم کر دیا، اسی مرد مومن مرد حق کی ثمرات سے آج پوری قوم مستفید ہو رہی ہے ، اس مرد مومن کے خلاف سیاسی پارٹیوں نے MRD تحریک چلائی، ” یہ ایک الگ داستان ہے کہ MRD کی تحریک میں قربانیاں کس نے دی اور MRD کی تحریک کو ثمر کس نے حاصل کیا، ” مرد مومن اس تحریک کو ختم کرتے کرتے خود فضا میں پٹ کر امر ہوگیا، مرد مومن کے جانے کے بعد پاکستان کے پالیسی میکر یہ سمجھ گئے کہ جب تک تعلیم ہے، لوگ آگہی پاتے رہیں گے، آگہی ہوگی تو لوگ اپنے حقوق کیلئے لڑتے رہیں گے، ان کے لئے تعلیم بے معنی کر دو، آپس میں لڑاؤ، مختلف ایشوز میں انہیں الجھا کر اپنے مرضی کے حکمران اپنے شرائط پر ان پر مسلط کرتے رہو، منشیات عام کر دو، فرقوں کو طاقتور بناؤ، انہیں عوام سے ہجوم میں بدلو ـ ماشاءاللّٰہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو چلانے والے اب تو اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ پارٹیاں بنا کر اپنے سیاسی لیڈر پیدا کر رہے ہیں، مستقبل میں انہی لوگوں کو اقتدار میں حصہ دار بنائیں گے جو انہی کی بنائی ہوئی ٹیم نے بنایا ہو، ان کے بس میں ہو تو یہ برائے نام کی سیاست بھی ختم کر دیں ـ
آج سندھ، بلوچستان’ خیبر پختون خواہ، پنجاب، کشمیر، گلگت بلتستان سب کے سب کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا ہیں، کہیں تعلیمی ادارے تباہ، تعلیمی نظام تباہ، کہیں پر قبائلی جھگڑے، کہیں خانہ جنگی، کہیں مذہبی جنونیت اور کچھ بچا بھی ہے تو انہیں بےوقوف بنانے کیلئے مختلف شکل سے مختلف لوگ سرگرم ہیں تا کہ لوگ اپنے حقوق سے نا آشنا رہیں بلکہ طبقاتی نظام تعلیم نے تو تعلیم کے حثیت کو ہی ختم کر دیا ہے، ہاں مدرسے خوب پھل پھول رہے ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں، میں مدرسوں کے خلاف نہیں مگر جہاں جبر طبقاتی بنیاد پر آ جائے، جاگیر دار، سرمایہ دار، بیروکریٹ، جرنل، یا ان سے جڑی طاقتیں سب کچھ پیسے کی بنیاد پر حاصل کریں اور غریب کے لیئے بس خدا کا نام شکر اور قناحت رہ جائے تو وہاں مذہب برائے نام کی رہ جاتی ہیں بلکہ مذہب کے ذریعے بالادست طبقہ اپنے ہونے، اپنے ظلم اپنے کو جواز اور صحیح ثابت کرتا ہے ـ
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سچ تو یہ ہے جس نے یہاں شعور آگہی کے لیئے کتابیں لکھیں، شاعری کی یا تھوڑی بہت سیاسی کام کیا چاہے، وہ عوامی قیادت ہو، عوامی شاعر ہو، یا ادیب دانشور وہ سب قتل گاہوں کے زینت بنے ، عام عوام مزدور کسان کی پوچھو مت کہ وہ اس نظام میں حالات کے کس مشکل چکی میں پس رہے ہیں . آج بھی اس ملک میں وہی جاگیردار سرمایہ دار جرنل کرنل حکومت کر رہے ہیں جو برسوں سے حکومت کرتے آ رہے ہیں اور جو باری کے منتظر ہیں وہ بھی یہی ہیں .
یہاں صرف چہرے بدلتے ہیں لوگ نہیں، جب تک یہ سسٹم ہے تب تک یہی سب ہوتا رہے گا، کہیں مذہب کا ماتم ہوگا کہیں انسانوں کا ، کہیں سر کٹ کے گریں گے کہیں لہو کی صدائیں بلند ہوں گی ، امیروں کی بستیاں آباد ہوں گی اور غریب دو وقت کی روٹی کو ترسے گا ، کہیں سرمایہ دار جاگیردار اپنی دولت پر نازاں ہوں گے تو کہیں مزدور کسان زندگی کو ترسیں گے
اس سسٹم کو ختم کئے بغیر یہاں کچھ نہیں بدلے گا اور اس سسٹم کو بدلنے کا مطلب شاید تقسیم در تقسیم
” 2 دسمبر 2014 میں لکھی گئی تحریر “