سوشلستان میں زینب کے بہیمانہ قتل پر تبصرے اور مذمتی بیانات تو جاری ہیں مگر اس کے ساتھ جو ہر ایسے کیس میں ہوتا ہے وہی ہو رہا ہے کہ ہر ایک اپنی سازشی مفروضوں کی دکان لگا کر بیٹھا ہے اور اسے دھڑا دھڑ بیچ رہا ہے۔
ان میں سے بعض مفروضے تو اتنے مضحکہ خیز ہیں کہ پڑھ کر خیال آتا ہے کہ آخر کیسے یہ خیال آیا ہو گا۔ مگر ہم ان میں ایک نجی چینل کے اینکر کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر بات کرتے ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالت میں بھی طلب کیا۔
جھوٹا الزام لگانے کی کیا سزا ہے؟
زینب انصاری کے قتل اور ریپ کے الزام میں گرفتار ملزم عمران علی کی گرفتاری کے بعد ٹی وی اینکر شاہد مسعود نے انکشاف کیا کہ عمران علی ’ایک عالمی چائلڈ پورنوگرافی نیٹ ورک کا حصہ ہے اور اس کے 37 بینک اکاؤنٹس ہیں۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کی بنیاد پر حکومت پنجاب اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دے چکی ہے مگر یہ سب ہونے تک سوشل میڈیا پر ایک طوفان آکر جا چکا تھا۔
صحافی اور اینکر مجیب الرحمان شامی نے لکھا ‘زینب قتل کیس میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات بہت اہمیت کے حامل ہیں، اب یہ بات ہوا میں نہیں اڑے گی، ہم توقع کرتے ہیں کہ اس کی جلد از جلد تفتیش ہو گی اور اگر دعویٰ درست ہے تو اس نیٹ ورک کا ہرصورت خاتمہ کیا جائے گا۔’
ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے اس بات کی تائید کی کہ اس بات کی اب تحقیق ہونی چاہیے۔
تاہم پاکستان میڈیا واچ کے ہینڈل سے ٹویٹ کرنے والے اکاؤنٹ نے لکھا ‘سپریم کورٹ آف پاکستان کو ڈاکٹر شاہد مسعود کا مواخذہ کرنا چاہیے۔ اگر ان کا زینب کے قاتل عمران کے بارے میں دعویٰ درست ثابت نہیں ہوتا اور اگر وہ ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ٹی وی پر سازشی تھیوریاں بیچنے پر انہیں لازمی سزا دی جانی چاہیے۔’
عادی تنولی نے بھی یہی لکھا کہ ‘اگر ملزم عمران علی کا کوئی بھی بینک اکاونٹ ثابت نا ہو اور ڈاکٹر شاہد مسعود کا دعویٰ غلط ثابت ہوجائے تو عدالت کیا سزا دے گی ڈاکٹر شاہد مسعود کو؟ اسلام میں جھوٹا الزام لگانے کی کیا سزا ہے؟’
عدنان رشید نے لکھا کہ ‘شاہد مسعود پہلے بھی ن لیگ پر الزامات لگاتے رہے ہیں لیکن وفاقی وزیر اور مقامی سیاستدان پر چائلڈ پورنوگرافی اور عالمی نیٹ ورک کا رکن ہونے کا الزام ایسا نہیں کہ جسے جانے دیا جائے، ن لیگ کو سپریم کورٹ ازخود نوٹس میں فریق بننا چاہیے۔’
میاں عالمگیر شاہ نے سوال کیا کہ ‘شاھد مسعود کے پاس زینب کے قاتل کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات تھیں، تو انھوں نے قاتل تک پہنچنے میں پولیس کی مدد کیوں نہیں کی؟ شاہد مسعود اپنے بارے میں بھی بتائیں کہ ان کے پیچھے کون سی بااثر شخصیات ہیں جن سے زینب کے قاتل کی گرفتاری ہضم نہیں ہو رہی۔’
ایک اور ٹی وی اینکر اقرار الحسن سید نے لکھا ‘بطور سینئر ڈاکٹر شاہد مسعود میرے لیے قابلِ احترام ہیں۔ لیکن میری معلومات اور تجزیہ یہ ہے کہ 37 بینک اکاؤنٹس، انٹرنیشنل مافیا یا سیاسی سرپرستی والا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ میرے اس جواب کو سنبھال کر رکھیے گا۔’
یاد رہے کہ اس سے قبل 2013 کے عام انتخابات کے دوران نجم سیٹھی کے حوالے سے 35 پنکچر کی بات ڈاکٹر شاہد مسعود نے کی تھی جس کے ثابت نہ ہونے پر پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ اس بارے میں ان کا اپنا بیان ‘ایک سیاسی بیان تھا۔’
آصف علی سندھو نے اسی بارے میں تبصرہ لکھا کہ ‘ڈاکٹر شاہد مسعود کی بات پر پاکستان میں صرف عمران خان یقین کرتا ہے۔ 35 پنکچر بھی موصُوف نے ایجاد کیے تھے اب 37 اکاٶنٹ بھی مارکیٹ میں آ گئے ہیں۔’
شکریہ بی بی سی اردو