استقبالِ رمضان
تحریر علامہ محمداحمد سعیدی
برکتوں والا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ اللہ تعالٰی نے اسے عظمتوں والا مہینہ بنایا ہے کیونکہ گیارہ ماہ انسان دنیا کی رنگینیوں میں مست اور مال کمانے کے میں لگا رہتا ہے جس سے اس کے دل پر غفلت کے پردے پڑ جاتے ہیں اس لٸیے اللہ تعالٰی نے مہینہ ہمیں عطا کیا کہ اس ماہ میں کثرت کے عبادت کرکے غفلت کے پردوں کو ہٹاٸیں اور خدا کو راضی کریں۔
کیونہ اس وقت ہمارے ملک پاکستان کیا پوری دنیا کرونا کی وبا میں مبتلا ہے تو اس ماہِ مبارک میں عجزو انکساری کے کے ساتھ توبہ واستغفار کرکے رب کو راضی کرنے کی جستجو میں لگ جاٸیں تاکہ اللہ ہم سب سے راضی ہو جاٸے اور ہمیں مزید آزماٸشوں سے محفوظ رکھے۔
رسولِ اکرم ﷺ شعبان کے آخر میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔
حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں ایک اہم خطبہ دیا اور اس میں آپﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے جس کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ‘‘
سورۃ البقرۃ میں بھی اس مہینے کے روزے کی فرضیت کا اعلان کیا گیا ہے: ’’تو جو کوئی بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ روزہ رکھے۔‘‘
اس مہینے میں روزہ رکھنا تو فرض ہے‘ جب کہ رات کا قیام نفل ہونے کے باوجود بہت ہی اجر و ثواب کا باعث ہے۔ قیام اللیل کا اطلاق سورۃ المزمّل کی آیات کی روشنی میں کم سے کم ایک تہائی رات پر ہوتا ہے‘ لیکن خلفائے راشدین کے دور سے ہی اس کا کم سے کم نصاب اُمت کے اندر رواج پاگیا ہے اور وہ ہے نظامِ تراویح۔ یہ قیام اللیل بہت اجر و فضیلت کا باعث ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اس مہینے میںﷲ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنّت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔
اس ماہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینا ہی صبر ہے‘ جب کہ حقیقت میں صبر کا مفہوم بہت جامع ہے۔
حضرت امام راغب اصفہانیؒ نے صبر کے تین درجے مقرر کیے ہیں (1) گناہوں سے اپنے آپ کو روکنا (2) اطاعت، بندگی اور دینی فرائض کی ادائی پر کاربند ہونا، (3) مشکلات اور سختیوں میں صبر کرنا۔ اور خاص طور پر اقامتِ دین کی جدوجہد کے مراحل میں آنے والی سختیوں کو جھیلنا‘ برداشت کرنا اور پھر استقامت کے ساتھ کھڑے ہوجانا۔ صبر کی تشریح میں شامل ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر صبر کو جنّت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
اور پہر یہ مہینہ ’’ ہم دردی اور غم خواری کا بہی ہے۔‘‘ اس ماہ میں غم گساری اور ہم دردی کے احساسات انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ خوش حال اور کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو انہیں کم از کم ان لوگوں کا احساس ضرور ہوتا ہے جو فاقوں میں زندگی گزارتے ہیں۔
یہاں پر ایک لمحے کے لٸیے رک کر تھوڑا سا سوچیں کہ ہماری ہم دردی اور غم گساری کے سب سے زیادہ مستحق کون لوگ ہیں؟ اس کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ ہماری ہم دردی کے مستحق معاشرے کے وہ لوگ ہیں جنہیں عام دنوں میں دو وقت کی روٹی بھی میسّر نہیں آتی۔ اگر آپ ان کا روزہ افطار کرائیں تو اجرو ثواب کے علاوہ ایک معاشرے کے اندر بہاٸی چارے کی فضا قاٸم ہو گی اس کو بے لوث محبت کہتے ہیں جو انسان اس مہینے میں اپنے غلام و نوکر کے کام میں تخفیف و کمی کر دے گا، توﷲ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے آزادی عطا فرماٸے گا۔
یہ ہم دردی اور غم گساری کا ایک مظہر ہے کہ اپنے ماتحت لوگوں کی ذمے داریوں میں تخفیف کردی جائے۔
گویا رمضان المبارک نیکیوں کی برسات کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اگر ہم صحیح معنوں میں محنت کرکے اپنے نفس کی تربیت کرلیں تو سمجھیں ہماری دنیا و آخرت سنور جاٸے گی۔
اور اگر ہم اس ماہ میں ﷲ کی رحمت سمیٹنے اور اپنی بخشش کرانے سے محروم رہ جائیں تو پھر ہم سے بڑا بدنصیب اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ تو کوشش کریں اس ماہِ مبارک میں اپنے گناہوں سے توبہ کریں، حضرت کعب بن عجرہؓ سے مروی مشہور حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ”آمین“ فرمایا، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین کے پوچھنے پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیلِ امین (علیہ لسلام )
میرے سامنے آئے تھے اور جب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، ظاہر ہے کہ اس شخص کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے جس کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام بد دعا کریں اورحضورﷺ آمین کہیں، اس لیے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کریں۔
رمضان المبارک کے فضاٸل بیان کرتے ہوٸے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
“وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ”.
(صحيح ابن خزيمة ط 3- 2/922)
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔
اور رمضان المبارک پہلے عشرے میں یہ دعا کثرت سے پڑھیں۔
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُالرَّاحِمِیْنَ ۔
دوسرے عشرے میں :اَسْتَغْفِرُاللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ…اورتیسرے عشرے میں یہ کثرت سے پڑھیں :اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ