پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے خلاف سپریم کورٹ کے ججوں اور فوج کے خلاف ٹوئٹر پر قابلِ اعتراض اور متنازع مواد شائع کرنے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کر کے ان میں سے ایک ملزم کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔
19 اکتوبر کو سائبر کرائم ایکٹ کے تحت درج کی جانے والی ایف آئی آر ابرار احمد نامی شخص کی درخواست پر درج کی گئی ہے۔
’سائبر کرائم کا قانون اب کیوں یاد آ رہا ہے؟‘
کوئٹہ: سائبر کرائم ایکٹ کے تحت صحافی پر مقدمہ درج
بی بی سی اردو کے نامہ نگار ذیشان حیدر کے مطابق ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ راولپنڈی کی ریلوے کیرج فیکٹری کالونی کے رہائشی انور عادل اور واجد رسول نامی اشخاص ٹوئٹر پر سپریم کورٹ کے جج صاحبان، افواجِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان وغیرہ کے بارے میں غیرقانونی طریقے سے بدنیتی پر مبنی معلومات پھیلا رہے تھے۔
ایف آئی آر کے مطابق ایسی معلومات سے نہ صرف عوام میں بےچینی پھیلنے کا اندیشہ تھا بلکہ یہ اداروں کے خلاف اکسانے اور نفرت پھیلانے کے مترادف بھی ہیں۔
اسی وجہ سے ان افراد کے خلاف سنہ 2016 کے سائبر کرائم ایکٹ کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
نامہ نگار کے مطابق ایف آئی اے نے مقدمہ درج کر کے انور عادل تنولی کو حراست میں بھی لے لیا ہے اور سوشل میڈیا پر ان کی گرفتاری کی خبریں گرم ہیں۔
انور عادل تنولی کا شمار سماجی روابط کی ویب سائٹس پر پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ہمدردوں میں ہوتا ہے۔
#bring_back_Atanoli اس وقت بھی پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے۔
19 اکتوبر سے ان کے غائب ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر سماجی کارکن اور مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے کارکن مسلسل اس بارے میں خدشات کا اظہار کر رہے تھے تاہم مسلم لیگی قیادت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی بیان یا ٹویٹ دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس پاکستان میں سائبر کرائم قوانین کے نفاذ کے بعد سوشل میڈیا پر ‘قابلِ اعتراض’ مواد شائع کرنے کے الزام میں اب تک متعدد افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
رواں برس جون میں کوئٹہ میں ایف آئی اے نے ہی وزنامہ قدرت کوئٹہ کے چیف رپورٹر اور اخبار کے مالک کے بیٹے ظفر اللہ اچکزئی کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر قابل اعتراض مواد شائع کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔