ہم کو معلوم ہے ’’سودن‘‘ کی حقیقت لیکن، دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ تصوراتی دنیا میں رہنے والوں پر طنز کرتے ہوئے ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ جب خیالی پلاؤ پکانا ہوتو پھر مصالحہ جات کی کمی کیوں چھوڑی جائے۔ سودن کے پروگرام میں بڑی بڑی چھوڑنے والے اپنی دانست میں عوام کو ’’بے وقوف‘‘ سمجھتے ہیں۔ روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ اور وعدہ آج نصف صدی بعد بھی ہوا میں معلق ہے۔ جس شخص نے عوام کو دوبارہ منہ دکھانا ہو وہ تو غیر حقیقی دعووں، اعلانا ت اور نعروں سے پرہیز کرے گا لیکن جس نے بائی ہک بائی کُرک محض اپنا الو سیدھا کرنا ہو اُسے ایسی باتوں سے کوئی غرض نہیں ہو گی۔ پی ٹی آئی نے اپنی حکمرانی کے پہلے سو دنوں کا جو تخمینہ یا ایجنڈا پیش کیا ہے وہ بھی کچھ ایسی ہی نوعیت کا ہے۔
ہمارے سابق کھلاڑی کی یہی سوچ قابلِ ملاحظہ ہے ہمارے تمام دانشور صحافی اینکر پرسن اور کالم نگار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ 100دن کا نام نہاد پروگرام قطعی ناقابلِ عمل ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ اس کھلاڑی اور اس کے پریشر گروپ کے پاس آخر ایسی کونسی گیدڑ سنگھی ہے جس کی بدولت وہ پوری ایک کروڑ نوکریاں نکال لائیں گے۔ کئی لوگ اس نوع کا تمسخر بھی اڑا رہے ہیں کہ کھلاڑی نے جس طرح ایک ارب درخت لگائے ہیں اسی طرح وہ ان درختوں کی گوڈی یا نہلائی
xADVERTISEMENT
Error loading media:
وغیرہ کے لیے ایک کروڑ افراد بھرتی کر لیں گے۔ جو لوگ خواہ مخواہ تنقیدی تیر و شمشیر چلانے پر مصر ہیں انہیں اپنے اس سخت رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ قائد حزبِ اختلاف کو بھی اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ اگر سودن کے اس ایجنڈے پر عملدرآمد ہو گیا تو وہ اس انہونی پر سیاست کو ہی خیر باد کہہ دیں گے۔ خورشید شاہ صاحب ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں چیلنج پیش کرتے ہوئے انہیں اس سطح تک ہرگز نہیں جانا چاہئے۔
اصل مقصد تو پاکستان کی حکمرانی کا حصول ہے بس ایک دفعہ کسی بھی طریقے سے میں وزیراعظم بن جاؤں پھر دیکھنا میں سودنوں میں کیا کیا گل کھلاتا ہوں۔ یہ جو کچھ ہم نے سو دنوں کا ایجنڈا بنا کر پیش کیا ہے یہ تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے جو میں کرنے جا رہا ہوں۔ میرے پاکستانیو! بس ایک دفعہ مجھے وزیراعظم بنا دو پھر دیکھنا میں کیا کچھ کرتا ہوں یہ لوگ جو مجھے طعنے دیتے ہیں کہ میں اپنا نام وزیراعظم رکھ لوں تو پھر اسی نام سے پکارا جاؤں گا انہیں میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں کوئی کمزور وزیراعظم نہیں ہوں گا مجھے پوچھے بغیر میرا کوئی وزیر اپنے دفتر میں داخل ہونے کی جرات نہیں کیا کرے گا۔ یہ وعظ و پندار سنتے ہوئے ہمیں اپنے علاقے کے چوہدری ریاض گجر یاد آگئے جنہیں ایم پی اے بننے کا اتنا شوق تھا کہ کم ذات والوں میں جا کر کہتے میرے بھائیو مجھے بھی کم ذات ہی سمجھو مگر مجھے ووٹ ضرور دے دو۔ علاقے کے ایک گاؤں کرتو پنڈوری گئے تو لوگوں نے کہا کہ چوہدری صاحب ہمارے گاؤں میں قبرستان نہیں ہے ہمارا یہ مسئلہ آپ نے حل کروانا ہے۔ بولے کرتو والو! اگر آپ لوگوں نے اپنا قیمتی ووٹ دیتے ہوئے مجھے اسمبلی میں پہنچا دیا تو قسم ہے پیدا کرنے والے کی میں پورے کرتو کو قبرستان بنا دوں گا۔
جب بندہ حصول اقتدار کی ہوس میں اس سطح تک چلا جاتا ہے تو پھر حقیقت یا تصور اور ممکن یا ناممکن کے چکر میں تھوڑے پڑتا ہے پھر تو دماغ میں ایک ہی بھوت سوار ہوتا ہے کہ بس مجھے وزیراعظم بنا کر دیکھو میں آسمان سے تارے توڑ کر تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا اب یہ عوام نے ثابت کرنا ہے کہ وہ ایسے شیخ چلی کی حقیقت کو کس قدر جان پاتے ہیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے آنے والے کل کا جائزہ اس کے گزرے کل کی کارکردگی سے ہی لیا جا سکتا ہے۔ عوامی حافظہ اگرچہ کمزور ہوتا ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ جس بل سے ڈنک لگوائیں دوبارہ اُسی میں انگلی ڈالیں۔ ابھی کل کی بات ہے جب یہ شخص کہتا تھا کہ میں 90دن میں کرپشن ختم کردوں گا، کے پی میں موبائل کورٹ بناؤں گا، 350ڈیم تعمیر کروں گا، وزیراعلیٰ ہاؤس کو لائبریری بنا دوں گا۔ ایک ہزار یونیورسٹیاں اور 500 نئے اسپتال بناؤں گا، شہباز شریف کی طرح جنگلہ بس نہیں بنائوں گا پھر کہا 4 ارب میں پشاور میٹرو بناؤں گا۔ پہلے کہا ٹیم کا لیڈر ایمان دار ہو تو نیچے کرپشن ہو ہی نہیں سکتی اور پھر اپنی ہی پارٹی کے 20ممبران اسمبلی کو کروڑوں کی کرپشن کے بدلے ووٹ فروخت کرتے خود ثابت کر دیا۔ یہ تمام احوال ملاحظہ کرتے ہوئے نواز شریف کی حکمت عملی واضح ہو جاتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ 2013 میں اگر وہ چاہتے تو مولانا کے ساتھ مل کر کے پی میں کھلاڑی کو محروم ِ اقتدار کر سکتے تھے مگر انھوں نے کہا کہ میں انہیں خدمت کا موقع دینا چاہتا ہوں تاکہ عوام 2018میں ازخود کارکردگی کا تقابلی جائزہ لے سکیں۔
ایک سابق امریکی صدر نے کیا خوب کہا تھا کہ آپ سب لوگوں کو کچھ مدت کے لیے بیوقوف بنا سکتے ہیں اور کچھ کو ہمیشہ کے لیے بھی الو بنا سکتے ہیں لیکن تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لیے احمق نہیں بنا سکتے۔ بلاشبہ عوامی شعور کو مفلوج کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اور ملک دشمنی کے جھوٹے الزامات تراشے یا اچھالے جا رہے ہیں اس سب کے باوجود ہمارا گمان ہے کہ اجتماعی عوامی شعور حقائق بیانی پر لگائی گئی بندشوں اور منفی پروپیگنڈے کی بھرمار میں بھی اس فرق کو بخوبی سمجھتا ہے جو کام کرنے والوں اور انگلیوں پر ناچتے ہوئے دھرنے دینے والوں میں ہے۔بشکریہ روزنامہ جنگ