سبق صداقت کا پڑھنا ہو گا
تحریر چوہدری رستم اجنالہ
زبان حلق
آج خبر نامہ میں یہ خبر سنی تو دلی تکلیف ہوئی خبر کچھ یوں تھی کہ کراچی کےایک گدھا گاڑی چلانے والےمیر حسن نے مہنگائی سے تنگ آکر خود کشی کر لی ۔میر حسن نے خود کشی سے کچھ دن پہلے وزیر اعظم کو ایک خط لکھا جس میں اس نے عمران خان سے اپیل کی کہ وہ غریب آدمی ہے اس کے اہلخانہ کے لیے ایک گھر کا انتظام کیا جائے اور اس کے بچوں کو اسکول میں داخلہ دلوایا جائے۔غریب باپ نے اپنے خط میں وزیر اعظم کو لکھا کہ اگر ان کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تو وہ اپنی غربت کی وجہ سے خودکشی کرلے گا۔اور آخر کاراج وہ محنت کش انسان اس دنیا میں نہیں رہا اور خود کشی کر کہ اگلی زندگی بسر کرنے کے لیے نکل پڑھا ہے اسلام میں خود کشی حرام ہے یہ ہر بندہ جانتا ہے یقیناً گدھا گاڑی چلانے والا میر حسن بھی اس بات سے واقف ہو گا کہ وہ حرام کی موت مر رہا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر اتنی بڑی کیا مجبوری تھی کہ میر حسن نے حرام موت مرنے کا فیصلہ کر لیا خبر سے پتا چلا ہے کہ اس کی اولاد نے اس سے گرم کپڑے مانگے اور وہ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور تھا کہ اپنے بچوں کی خواہش پوری نہ کر سکا اور وہ یہ بات سوچتے ہوئے کہ وہ کتنا بے بس ہے کہ اپنی اولاد کی جائز خواہش بھی پوری نہیں کر سکا اور اس نے حرام موت کو گلے لگا لیا اجکل پاکستان میں سردی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کیا اس مزدور کے بچے اتنی سردی میں بھی گرم کپڑوں سے مرحوم ہیں ؟ اور کیا پاکستان کی این جی اوز پاکستان کے حکمران اور پاکستان کی عوام اتنی گہری اور غفلت کی نیند سو رہے ہیں کہ وہ ایک بے بس انسان کی زندگی بچا سکیں ؟کہاں سے آئیں وہ ریاست مدینہ کے حکمران جو کہتے تھے کہ دریائے دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کا بھی ہم کو حساب دینا پڑھے گا لیکن اج مرنے والے مزدور نے تو ریاست مدینہ کر دعوایدر حکمرانوں کو خط لکھ کر بھی بتا دیا تھا کہ ایسا نہ ہوا تو وہ خود کشی کر لے گا پھر بھی اسکی زندگی کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی اس غریب کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟کیا مرنے والا مسلمان نہیں تھا؟کیا وہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں تھا؟ بلکہ کیا وہ انسان بھی نہیں تھا؟ ہمارے مسلم حکمران تو رات کوبھیس بدل کر ایسے لوگ اپنی ریاست میں تلاش کرتے تھے کہ کوئی بھوکا ننگا تو نہیں ہے جس کی مدد کی جائے اور اللہ کے حضور پیش ہونے پر سرخرو ہو جائیں اور اج کے ہمارے حکمرانوں کو سب علم ہونے کے باوجود بھی پتا نہیں کیسے رات کو نیند آجاتی ہے اجکل کے حکمران تو بے حس ہو ہی گئے ہیں یقیناً ان کو اسکا حساب دینا ہی پڑے گا اس کے ساتھ ساتھ مرنے والے میر حسن کے شہر کے لوگ بھی کیا اس بات سے ناواقف تھے؟ کہ میر حسن کے بچے اتنی سردی میں بھی ننگے ہیں اور سردی سے مر رہے ہیں میر حسن کے بچوں کو کپڑوں کی ضرورت ہے ؟ کیا اس میر حسن کے محلے دار بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ مجبوری اور لاچاری کی زندگی بسر کر رہا ہے اور تو اور کیا اس کے ہمسائے اور قریبی رشتہ دار بھی اس کی لاچار گی کو نہ جان سکے کیا کوئی ایسا انسان بھی ایسا نہیں تھا جو انسانیت کا ہی خیال کر لیتا ؟اور انسانیت کو بچا لیتا یا پھر شہر کے لوگ محلے دار ہمسائے اور رشتہ دارجان بوجھ کر اس کی مجبوری لاچار گی کا تماشہ دیکھتے رہے ؟کیا پورے کراچی شہر اس کے پورے محلے اور اس کے ہمسایوں میں ایک شخص میں بھی اتنی طاقت نہیں ہےکہ وہ اس غریب اور اس کے گھر والوں کے لیے درد دل رکھتے ہوئے اس کی غریبی کا بھرم رکھ سکتا اور اس کی خاموشی سے مدد کر دیتا کہ وہ اتنا بڑا قدم نہ اٹھاتا یعنی حرام کی موت کا انتخاب نہ کرتا افسوس کہ اج ہم میں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا جذبہ ختم ہو گیا ہے اج بھائی بھائی کا ساتھ نہیں دے رہا بلکہ اس کی بے بسی کا تماشہ دیکھنے کا منتظر نظر اتا ہے ہر بندہ بڑی آسانی سے کہتا ہے اولاد کے حقوق پورے کرنا ہی اسلام ہے لیکن اسلام میں والدین اولاد حقوق اللہ حقوق العباد بھی ہیں جن کو پورا کرنا ہم پر فرض ہے ہم یہ سب بھول چکے ہیں لیکن یاد رکھو ہم کو اس کا حساب آخر دینا ہے یاد رکھنا حکمرانو میر حسن کے شہر میں رہنے والو اس کے محلے دارو رشتےدارو اور ہمسائیو اور اسکو جاننے والے عزیزو تم سب کو بھی میر حسن کی موت کا حساب بل آخر دینا ہے کس منہ سے اللہ کے حضور پیش ہو گے ؟ کہ میر حسن کو تم جانتے ہوئے بھی کہ وہ بہت مجبور انسان تھااس کی مدد نہ کر سکے افسوس کہ میر حسن اپنے بچوں کی خواہش پوری نہ کرنے پر تو خودکشی کر کہ اس دنیا سے چلا گیا لیکن بچوں کو کس کے سہارے پر چھوڑ گیا؟ ان بے حس حکمرانو کے؟ اس بے حس معاشرے کے؟ان بے حس رشتے داروں کے؟ جو اس کے جیتے جی اس کا اور اسکی کی اولاد کا سہارا نہیں بن سکے وہ اس کے مرنے کے بعد کیا اس کی اولاد کا سہارا بنیں گے؟ میر حسن تم سے بھی پوچھا جائے گا کہ تم انکو بے سہارا چھوڑ کر حرام کی موت کیوں مرے ؟ میری پاکستان کے حکمرانو سے پاکستانی عوام سے اپیل ہے کہ حکمران اپنی ریایا پر نظر رکھیں کہ کوئی بھوکا پیاسا نہ ہو کوئی مجبوری کی حالت میں حرام کی موت نہ مرے میری اپیل ہے پاکستان کے ہر بندے سے کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں پر گہری نظر رکھےاور اسلامی تاریخ میں صداقت کا جو سبق ہے وہ پڑھ کر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گذارے تا کہ پھر کوئی دوسرا میرحسن پیدا نہ ہو جو معاشرے کی بے حسی کی وجہ سےاس معاشرے میں حرام کی موت کو گلے لگائے اگر ہم نے اس کے بارے میں سنجیدگی سے نہ سوچا تو ہم کبھی مہذب معاشرہ نہیں بن سکتے اور نہ ہی اچھے مسلمان بن سکتے ہیں ہمیں اسلام کو مقدم رکھنا ہوگا تب ہی ہم دنیا اورآخرت میں کامیاب ہوں گے اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں کامیابی ہمارے قدم چومے توہمیں صداقت ۔شجاعت کا سبق پڑھنا ہو گا
سبق پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا