قائد حزب اختلاف پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے قوم کو مبارک باد دی کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ اتفاق رائے سے ہوگیا ہے، اس بیان کو سن کرمجھے ساری رات یہ سوچتے ہوئے نیند نہیں آئی کہ ہمیں من حیث القوم کتنا ’’کرپٹ‘‘ کر دیا گیا ہے، ہم یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ لوگ جو اقتدار میں موجود ہیں وہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد کرا سکیں یعنی وہ لوگ جو بیس کروڑ عوام کے انتخاب شدہ ہیں، جو اس ملک کی کریم ہیں، جو نئی نسل کے لئے رول ماڈل ہیں، جنہوں نے اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا ہے، جنہوں نے ہر غریب آدمی کو انصاف دینا ہے، روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرنا ہے، وہ لوگ اس درجہ کرپٹ ہیں کہ یہ بات یقینی سمجھ لی گئی ہے کہ انہوں نے دھاندلی کرنی ہی کرنی ہے اُن کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ خوش اسلوبی سے جیتنے والی پارٹی کو اقتدارسونپ دیں جیسا کہ ساری دُنیا میں ہوتا ہے۔ انتخابات کے لئے ایک نگران حکومت کا قیام باقاعدہ پاکستان کے آئین میں شامل کیا گیا ایسا کیوں ہوا؟ کیا یورپ اور امریکا میں رہنے والے لوگ ہم سے بہت بہتر انسان ہیں ہم سے زیادہ بہتر اخلاقی قدریں رکھتے ہیں، ہم تو ایک خدا اور ایک رسول کو ماننے والی قوم ہیں، ہم تو حضرت عمر فاروقؓ کے انصاف کے قصے بیان کرتے ہیں، حضرت علیؓ کی کہانیاں سناتے ہیں، ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کئی بار یورپ میں انتخابات ہوتے ہوئے دیکھے بھی ہیں اور اُن میں حصہ بھی لیا ہے، یقین کریں انتخابات والے دن زندگی کے تمام معاملات معمول کے مطابق سر انجام دیئے جا رہے ہوتے ہیں کوئی چھٹی نہیں ہوتی، گلیوں اور سڑکوں میں ویگنیں اور دوسری سواری ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن پر لے جانے کے لئے موجود نہیں ہوتیں، کسی پولنگ اسٹیشن پر کسی اُمیدوار کا کوئی پولنگ ایجنٹ نہیں ہوتا، کسی گاڑی، عمارت یا کسی پارک میں کوئی لائوڈا سپیکر نہیں لگایا جاتا، پولنگ اسٹیشن کے قرب و جوار میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہوتی جہاں کوئی اُمیدوار شامیانے لگا کر اپنے ووٹروں اور سپورٹوں کو بٹھا سکے، صبح آٹھ بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک جب ووٹ کاسٹ کرنے کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو پھرتمام پولنگ اسٹیشنوں سے ’’بیلٹ باکس‘‘ کسی بڑے ہال میں منتقل کئے جاتے ہیں جہاں ہر اُمیدوار کے چار پولنگ ایجنٹ گنتی کا عمل دیکھنے کے لئے موجود ہوتے ہیں ۔تقریباً چالیس سے پچاس لوگ گنتی کرنے کے لئے ایک بہت بڑی ٹیبل کے ارد گرد براجمان ہوتے ہیں جو دو اڑھائی گھنٹوں میں تمام ووٹ گنتی کر لینے کے بعد وہیں فتح اور شکست کا اعلان کر دیتے ہیں اور وہی حتمی اعلان ہوتا ہے۔ یہ منظر اُن لوگوں کا تھا جن کے خدا پر ایمان کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن یہ طے ہے کہ وہ اُس چارہ سازِ بے کساں کے ماننے والے نہیں جہاں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں جہاں دروغ گوئی خیال میں نہیں آسکتی، جہاں سچائی ہی سچائی ہے، ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی سچائی۔ ہم اُس محمد عربیﷺ کے ماننے والے پاکستانی مسلمان بھی کیا ہیں؟ آئینے میں پوری سچائی کے ساتھ اپنا چہرہ دیکھیں تو شاید آئینہ ٹوٹ جائے ۔پاکستان میں ہونے والے 2013کے انتخابات میں اگرچہ عدالت عظمیٰ نے کہہ دیا تھا کہ اجتماعی دھاندلی نہیں ہوئی مگر چالیس فیصد تک انفرادی دھاندلی کو تسلیم کیا گیا تھا۔ کئی اُمیدواروں کے جب بیلٹ باکس کھولے گئے تو عدالت گاہوں نے دیکھا کہ اُن میں ردی بھری ہوئی ہے کئی نشستوں پر انتخابات کالعدم قرار دیئے گئے مگر کتنی حیران کن بات ہے کہ دھاندلی کرنے کے جرم میں کسی کو سزا نہیں دی گئی ۔ برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں ایک امیدوار نے چند ’’پوسٹل‘‘ ووٹوں میں ہیرا پھیری کی تھی یہ جرم ثابت ہونے پر اُسے سات سال جیل کی سزا دی گئی۔ پاکستان میں لاکھوں ووٹ جعلی ڈالے گئے مگر ثابت ہونے کے باوجود نہ جعلی ووٹ ڈالنے اور نہ ہی جعلی ووٹ ڈلوانے والے کو سزا دی گئی جتنی کہ اُس امیدوار کو سز انہیں دی گئی جس کے لئے یہ جعل سازی کی جا رہی تھی، ایک بہت بڑی دھاندلی اُس وقت ہی ہو جاتی ہے جب اُمیدوار اپنی انتخابی مہم شروع کرتا ہے۔ برطانیہ میں ممبر آف پارلیمنٹ کا اُمیدوار تین ہزار پونڈز سے زیادہ رقم انتخابی مہم پر خرچ نہیں کر سکتا جو پاکستانی روپوں میں چار سے ساڑھے چار لاکھ بنتی ہے، اگر کوئی اس سے زیادہ رقم خرچ کرے تو فوری طور پر نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں چار لاکھ کے مقابلے میں چالیس لاکھ خرچ کرنے کی اجازت ہے یعنی متوسط طبقے کا کوئی آدمی انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ ہی نہیں سکتا اور پھر اس سے بھی بڑے ظلم کی بات یہ ہے کہ ایک ایم این اے کے انتخاب پر آٹھ سے دس کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور آج تک اس جرم میں کسی ایم این اے کو نا اہل نہیں کیا گیا ۔
کیا انتخابی عمل کو صاف اور شفاف بنانے کے لئے آسمان سے فرشتے آئیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں وہی لوگ ہوں گے جو پہلے انتخابات کراتے چلے آرہے ہیں، اُن میں بس انیس بیس کا فرق ہوگا۔ جہاں تک جس اُمیدوار کا داؤ چلے گا وہاں تک وہ دھاندلی ضرور کرے گا وہ مجبوروں اور بے کسوں کے ووٹ پیسوں سے خریدے گا وہ بیماروں کے علاج معالجے کے نام پر کچھ گھرانوں میں رقم بھجوائے گا، کہیں جھوٹ موٹ کے بجلی کے کھمبے لگوا دے گا، یعنی جو فراڈ اُس سے بن پڑے گا وہ کرنے سے باز نہیں آئے گا، اپنے حواریوں کے ساتھ بیٹھ کر دھاندلی کے نئے طریقوں پر غور کرے گا، کسی کے گھر جا کروہاں کے مقیم کے پاؤں پکڑ کر ’’ایموشنل بلیک میل‘‘ کرے گا۔ انکار کرنے والے ووٹر کے پاس اس کے کسی بزرگ یا پیر کو کھینچ لائے گا تاکہ ووٹر ووٹ دینے کے لئے مجبور ہو جائے ، بہت پہلے جو لوگ مرچکے ہیں اُن کے شناختی کارڈز جمع کئے جائیں گے اور پھر وہی شناختی کارڈ فوت شدگان کی طرف سے ووٹ کاسٹ کرے گا یعنی ووٹ عالم ِبالا سے بھی لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ یہ سب کچھ کرنے والوں کی اخلاقی سطح تو ہمارے سامنے ہے شاید یورپ میں رہنے والے لوگوں کی اخلاقی سطح بھی ایسی ہی ہو مگر وہاں قانون کا خوف کسی کو غلط قدم اُٹھانے نہیں دیتا، پاکستان چونکہ قانونی حوالے سے ایک اندھیر نگری ہے اور اِس اندھیرے میں صاف شفاف انتخابات کے خواب دیکھنے کی جرات کم از کم میں تو نہیں کر سکتا۔