1983 میں جب ضیاءالحق اینڈ کمپنی نے پیپلزپارٹی کو مزید کمزور کرنے کے لیے ایم کیو ایم اور قوم پرستوں کو سندھ سے گود لیا تو پنجاب سے یہ انتخاب شریفوں کا کیا گیا اور ان کی مدد کے لیے دائیں بازو کے مذہبی گروہوں کو مضبوط کیا گیا. 1986 میں شہید بے نظیر بھٹو کے لاہور میں استقبال کو دیکھ کر 1988 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر ان تمام مذہبی گروہوں کو مسلم لیگ کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور شریفوں اور ان مذہبی شدت پسندوں سے اور کرائے کے لکھاریوں سے یہ پروپیگنڈہ کروایا گیا کہ پیپلزپارٹی ایک غداد جماعت ہے بھٹو صاحب نے
ملک توڑا بے نظیر بھٹو سیکورٹی رسک تھی اور سکھوں کی لسٹیں اعتزاز احسن نے ہندوستان کے حوالے کیں وغیرہ وغیرہ. اس پروپیگنڈہ کا شکار سب سے زیادہ جی ٹی روڈ ہوا اور شریف اس پر مضبوط ہوتے گئے اس کے ساتھ غداری کے پروپیگنڈہ نے فوجی بیک گراؤنڈ والا سارا ووٹ بھی اینٹی پیپلزپارٹی بنا کر شریفوں کی جھولی میں ڈال دیا. یہ تینوں اقسام کے ووٹ بینک 1.دائیں بازو کا مذہبی ووٹ بینک 2.مڈل کلاس تاجر طبقہ 3. فوجی بیک گراؤنڈ والا ووٹ بینک پر شریف اپنی 34 سال کی سیاست کرتے رہے ہیں اور ساتھ ہر الیکشن میں فرشتوں کی مدد بھی اور یہ ووٹ بینک 2013 کے الیکشن تک ملتا رہا. 2013 کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم قوم پرستوں اور,مذہبی شدت پسندوں کی طرح شریفوں نے بھی ریاست کے مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور ان کے معماروں کو 34 سال بعد پتہ چلا کہ یہ تو غداد اور کرپٹ ہیں حالانکہ وہ پہلے دن سے کرپشن کر رہے تھے لیکن 34 سال ملک کی واحد وفاقی سیاسی جماعت کو ختم کرنے کے لیے انہیں کرپشن کرنے دی جاتی رہی. آج 34 سال بعد پوری قوم کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ کرپٹ اور غدار ہیں. فوجی بیک گراؤنڈ والا ووٹ پی ٹی آئی کو منتقل کر دیا گیا ہے اور دائیں بازو کے مذہبی گروپوں کو لبیک یا رسول اللہ,ایم ایم اے اور ملی مسلم لیگ کو اگلے الیکشن میں اتار کر واپس لے لیا جائے گا اور شریفوں کو واپس 1983 والی پوزیشن پر بھیجنے کی تیاری مکمل ہے .شریفوں کا عمران نیازی اینڈ کمپنی کی طرح نہ کوئی نظریہ تھا نہ ہے اور نہ کوئی اپنا ذاتی نظریاتی ووٹ بینک وہ 34 سال اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اسی کے دیے ہوئے ووٹ بینک پر,سیاست کرتے رہے. موٹر وے پل انڈر پاس پیلی ٹیکسی سکیم کوئی نظریہ تھا نہ ہے. اوپر والے کی لاٹھی بے آواز ہے جو شریف 34 سال تک پیپلزپارٹی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر,کرتے رہے آج وہ سب ان کے ساتھ ہوگیا. اور پیپلزپارٹی 50 سال بعد بھی آج اس ملک کے سیاسی افق پر قائم دائم ہے اور ملک میں کسی علاقے میں کمزور اور,کہیں طاقتور ہے .