پیشکش بلاول کی فائدہ کس کا؟
تحریر۔ چوہدری رستم اجنالہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے گذشتہ روز ایم کیو ایم کو سندھ میں وزارتوں کی افر کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے الگ ہونے کا اور حکومت کو گرانے کا کہا ہے بلاول نے بطور اپوزیشن اپنا ایک پتا پھینکا ہے بلاول کے اس اعلان پر ایم کیو ایم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت ابھی تک تو ہماری امیدوں پر پوری نہیں اتری ہے لیکن ہم وفاقی حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کسی کی خواہش پر بھی نہیں کر سکتے ایم کیو ایم کو وزارتیں دینے کے اعلان کے ساتھ ہی وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ نے سب سے پہلے اپنی وزارت کی قربانی دینے کا اعلان کیا ہے انکا یہ بیان سونے پر سہگاہ ہے کیوں کہ بلدیات ایم کیو ایم کے لیے کراچی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے اور حقیقت میں ایم کیو ایم وزارت بلدیات سے اپنے بیشمار اہداف حاصل کر سکتی ہے جن کی اسکو اشد ضرورت ہے بلاول کی ایم کیو ایم کو پیشکش کرنے پر وفاقی حکومت نے بھی آئندہ سال کراچی کے لیے بجٹ بڑھانے کا اعلان کیا ہے اپنی حد تک تو بلاول کی پیشکش ٹھیک ہے کیونکہ اپوزیشن کا تو کام ہی حکومت کو ہر محاز پر کمزور کرنا ہوتا ہے بلاول کا ایم کیو ایم کو وفاقی حکومت گرانے کا مشورہ ہو یا مولانا کا آزادی مارچ اپوزیشن تو ہر حال میں حکومت گرانا چاہتی ہے اس کے لیے اپوزیشن کو مولانا کا آزادی مارچ میں ساتھ دینا پڑے یا ایم کیو ایم کو وازارتوں کا لالچ دینا پڑے اپوزیشن تو ہر روز یہ خواب دیکھتی ہے کہ حکومت گرنے والی ہے لیکن ابھی تک تو اپوزیشن کی یہ خواہش اپوزیشن کا خواب ہی ثابت ہو رہی ہے اوردوسری طرف حکومت ہر حال میں اپنے اپکو مظبوط کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے خواہ اسکو کراچی کا بجٹ بڑھانے کا لالچ دینا پڑے یا کسی بھی اتحادی جماعت کی وزارتیں بڑھانی پڑیں حکومت اور اپوزیشن کے ان بیانات سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم ایک لالچی جماعت ہے اسی لیے تو اپوزیشن اپنے مفاد کے لیے وزارتوں کا لالچ دے رہی ہے اور حکومت بجٹ بڑھانے کا حکومت اور اپوزیشن دونوں یہ جانتی ہیں کہ ایم کیو ایم کو وزارتوں کی ہر دور میں ضرورت رہتی ہے اور حکومت میں رہنا بھی ایم کیو ایم کی کمزوری ہے خواہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو ایم کیو ایم نے تو ہمیشہ اقتدار کے ہی مزے لوٹے ہیں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ بلاول کی اس پیشکش کا فائدہ اپوزیشن کو ہو سکتا ہے ؟حکومت کو ہوسکتا ہے ؟یا پھر ایم کیو ایم کو ہو سکتا ہے ؟میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ بلاول کی پیشکش کا فائدہ کسی اور کو ہو یا نہ ہو بلکہ ایم کیو ایم کو ضرور ہے اس پیشکش سے ایم کیو ایم کی اہمیت بڑھے گی حکومت کو پتا ہے کہ ہماری حکومت ایم کیو ایم کی بیساکھی کے علاوہ کئی اور بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے اور اگر ایم کیو ایم کسی بھی اپوزیشن کے لالچ میں آگئی اور حکومت سے الگ ہو گئی تو حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا اور حکومت کو اپنے اپ کو بچانے کے لیے اپنے اتحادیوں کے مطالبے ماننے پڑھیں گے اور اگر حکومت نے ایسا نہ کیاتو حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور اگر حکومت کسی وجہ سے ایم کیو ایم کو راضی نہ رکھ سکی اور ایم کیو ایم نے بلاول کی پیشکش قبول کر لی تو اس صورت میں بھی ایم کیو ایم اپنی مرضی کے مطالبات رکھے گی اور اپوزیشن عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے ہر مطالبہ منظور کر لینے پر راضی ہو جائے گی اگر ایسا بھی ہوا تو بھی فائدہ ایم کیو ایم کو ہی ہو گا یعنی ہر صورت میں فائدہ ایم کیو ایم کا ہی نظر اتا ہے یعنی ایم کیو ایم کو حکومت اور اپوزیشن نے لالچی تو ثابت کر دیا ہے لیکن اس میں فائدہ ایم کیو ایم ہی کا ہے پتا بلاول کا چلے جو اس نے پھینکا ہے یا حکومت کا چلے فائدہ برحال میرے نقطہ نظر سے ایم کیو ایم کو ہی ہے اب یہ فیصلہ ایم کیو ایم نے کرنا ہے کہ اسکو کس کی پیشکش (لالچ ) قبول کرنی ہے اور ہمیشہ کی طرح اپنا اثر کیسےقائم رکھنا ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تو ایم کیو ایم کو حکومت کا حصہ دار دیکھا ہے حکومت نواز شریف کی ہو پیپلز پارٹی کی ہو پی ٹی آئی کی ہو یا پھر مشرف کا دور ہو سب میں ہی ایم کیو ایم حکومت میں رہی ہے اور شائید ایم کیو ایم کو اپوزیشن کا تجربہ ہی نہیں ہے اور اگر دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ ایم کیو ایم اپوزیشن میں رہ ہی نہیں سکتی تو یہ غلط نہ ہو گا اور اب بھی حکومت میں رہنا ایم کیو ایم کی مجبوری ہے خواہ وفاقی حکومت میں ہو یا صوبائی حکومت میں اب ایم کیو ایم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کا ساتھ دے کر آئندہ الیکشن کے لیے اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے یا صوبائی حکومت میں شامل ہوکر وہ بہتر کارکردگی دیکھا سکتی ہے؟ اپوزیشن تو اپنے پتے پھینکتی رہے گی برحال حکومت کو بہت محتاط رہنا ہو گا کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی شخص اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا پیپلز پارٹی کے دور میں وہ حکومت اس موجودہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ مظبوط تھی اس کے باوجود پیپلز پارٹی اپنے وزیر اعظم کو پانچ سال پورے کروانے میں ناکام رہی ق لیگ کی حکومت پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ مظبوط تھی کیوں کہ اس کو مشرف کی حمایت حاصل تھی اس کے باوجود وہ بھی ناکام رہی اپنے وزیر اعظم کا دفع کرنے میں اور نون لیگ تو پچہلے دور میں بظاہر مظبوط ترین تھی وہ بھی نواز شریف کو نہ بچا سکی اور یہ موجودہ حکومت تو پہلے ہی بیساکھیوں پر قائم ہوئی ہے اور اس حکومت کے کیے یہ مشکل ترین کام ہوگا شائید اس حکومت کو ابھی اس بات کا اندازہ نہیں ہو رہا حکومت کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے اسی میں ہی حکومت اپوزیشن اور عوام کا مفاد ہے اللہ کرے حکومت ۔اپوزیشن اور تمام پارلیمانی جماعتیں ملکی مفاد کے لیے فیصلے کریں نہ کہ اپنے یا اپنی پارٹی کے مفادات کے لیے آمین