یہاں چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں
تحریر چوہدری رستم اجنالہ
جن بچوں کے سامنے انکے ماں باپ کو گولیوں سےبھون دیا گیا تھا سانحہ ساہیوال میں ابھی خبر پڑھی کہ سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان کو شک کی بنا پر بری کر دیا گیا ہے سانحہ ساہیوال سے شائید ہی کوئی ایسا بندہ ہو جو واقف نہ ہو اس سانحہ کی کئی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے شہریوں کو سر عام گولیاں چلا کر قتل کر دیا جاتا ہےاور وہ شہری گاڑی میں فیملی کے ساتھ جا رہے تھے گاڑی میں عورتیں اور چھوٹے بچے بھی سوار تھے ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ دہشت گرد تھے تحقیقات کرنا پاکستان کے اداروں کا کام تھا گو انہوں نے کیا یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ تحقیقات کس حد تک ہوئیں میرا سوال یہ نہیں ہے کہ وہ مرنے والے دہشت گرد تھے یا نہیں وہ مجرم تھے یا نہیں میرا سوال یہ ہے کہ انکو جو سرعام قتل کیا گیا کیا ہمارا قانون اس کی اجازت دیتا ہے؟میرے خیال میں تو پوری دینا کو قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایسے انکے بےگناہ بچوں کے سامنے کسی کے والدین کو قتل کر دیا جائے قانون تو قانون بلکہ یہ اخلاقیات اور انسانیت کی بھی سر عام تذلیل ہے اگر کوئی مجرم ہے بھی تو اس کو گرفتار کر کہ عدالت میں پیش کیا جائے تو پھر عدالت قانون کے مطابق اسکو سزا دے لیکن ہمارے ہاں تو شروع سے ہی ہر کام کی بنیاد ہی غلط رکھی جاتی ہےپہلے تو پولیس والوں نے بنیاد فائرنگ کر کہ غلط رکھی پھر جب ایف آئی آر کاٹی گئی ہو گی اس وقت بھی اس بات کو مدنظر رکھ کر کاٹی گئی ہو گی کہ ملزم کون ہیں پھر تفتیش میں بھی کچھ آیسا ہی حال ہوا ہو گا پھر جو فائل تیار کی گئی ہو گی عدالت میں پیش کرنے کے لیے وہ بھی تیار اس طرح کی گئی ہو گی کہ عدالت شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزمان کو بری کر دے سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو بری کرنے میں عدلیہ کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ قصور ہمارے نظام کا ہے عدلیہ نے تو فیصلہ کیس کو مدنظر رکھ کر دینا ہوتا ہے ہم کو اس ظالم نظام کو بدلنا ہو گا لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں جب تک یہ نظام نہیں بدلا جائے گا اس وقت تک اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے اج تو پی ٹی آئی کے رہنما ندیم افضل چن نے بھی ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ سانحہ ساہیوال میں انصاف نہیں ہوا سوچنے کی بات ہے کہ اس بات کا قصوروار کون ہے کوئی تو ہے نا ؟اس طرح کے جتنے بھی سانحے ہوتے ہیں آخر ان میں کوئی تو قصور وار ہوتا ہے میں تو اسمیں قصور وار نظام کو سمجھتا ہوں جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہو گا تو انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکیں گے پاکستان میں چہرے تو بہت تبدیل ہوئے لیکن نظام ابھی تک نہیں بدلا جا سکا پاکستان کو اب کسی نئے چہرے کی نہیں بلکہ نئے نظام کی ضرورت ہے اسلامی نظام کی ضرورت ہے صرف کہنے کی حد تک ریاست مدینہ نہیں بلکہ حقیقت میں ریاست مدینہ والے قوانین بنانے ہونگے اتنے سالوں میں بھی اگر نظام نہیں بدل جا سکا تو کب ممکن ہو سکے گا اگر ہم پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانا چاہتے ہیں تو پاکستان میں اب کوئی نیا چہرہ بدلنے کا تجربہ نہیں بلکہ نظام بدلنا ہو گا ۔اسی عنوان (یہاں چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں )سے کالم میں نے اس وقت بھی لکھا تھا جب مشرف صاحب اقتدار میں آئے تھے لیکن مشرف کے بعد بھی کئی نئے چہرے تو سامنے آئے ہیں لیکن کوئی نیا نظام جو قرآن و سنت کے مطابق ہو نہیں بن سکا ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خدا راہ اب چہرے نہ بدلو بلکہ اس نظام کو بدلو اگر پاکستان کے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو پاکستان کا ہر بندہ اس نظام کی بات تو کرتا ہے کہ نظام ٹھیک نہیں ہے لیکن اس کو بدلنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرتا کوئی بھی اپنی ذرداری ایمانداری کے ساتھ نہیں نبھاتا۔اس نظام کی وجہ سے ظالم مزید ظالم بن رہا ہے اور مظلوم زمین میں ہی دھنستا چلا جا رہا ہے امیر امیر ترین ہوتا جا رہ ہے اور غریب خود کشی پر مجبور ہو رہا ہے کسی کمزور کو ملک میں انصاف نہیں مل رہا۔کیا صلاح الدین جو پولیس کی حراست میں تفتیش کے دوران تشدد سےہلاک ہو گیا تھا اس کے والدین کو انصاف مل سکا ؟ کی سیالکوٹ کے جو دو بھائی سرعام قتل ہوئے تھے کیا انکے والدین کو انصاف ملا؟ کیا اعظم سواتی صاحب کے معاملے میں اس غریب خاندان کو انصاف مل گیا؟ کیاسانحہ ماڈل ٹاون میں ان خاندانوں کو انصاف ملا؟اور اب کیا سانحہ ساہیوال میں ان بچوں کے انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں ؟جن کے سامنے انکے والدین کو قتل کیا گیا۔کیا وہ بچے ساری زندگی وہ لمحات اپنی آنکھوں سے نکال سکیں گے؟ کیا وہ بچے اس نظام سے ساری زندگی مطمئن ہو سکیں گے؟ میرا نہیں خیال اگر بچوں کو انصاف مل جاتا تو ممکن ہے وہ نظام سے مطمئن ہو جاتے لیکن اب ممکن نہیں ہے اگر ملک میں انصاف کا بول بالا ہو گا ملک میں اسلامی قوانین لاگو ہونگے تو ہی ہم کامیاب ہونگے اور پاکستان حقیقت میں ایک اسلامی ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا اور اگر اب بھی یہ ظالم نظام نہ بدلا گیا پھر اللہ ہی بہتر جانتا ہے اس پر شعائر نے کیا خوب کہا ہے کہ
خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا
ہو نا جسکو خیال خود اپنی حالت بدلنے کا۔