ڈارک ویب پورن کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔ یہاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔2009 ء میں بھارتی شہر ممبئی کے ایک اپارٹمنٹ سے رادھا نامی چھ سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش ملی تھی جسے جنسی درندگی کے دوران شدید جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئی تھی، زبان نوچی گئی تھی اور اعضائے مخصوصہ پر چھرئیوں کے وار کیے گئے تھے۔ ممبئی پولیس نے اس کیس کی تحقیقات قاتل کے نفسیاتی ہونے کے زاویے پر کیں اور قاتل کوسیریل کلر کا نام دے کر فائل کو بند کردیاتھا، لیکن اصل میں معاملہ یہ نہیں تھا۔ ٹھیک دوسال بعد ممبئی ہی میں بیٹھے ہوئے ایک ہیکر نے ڈارک ویب کی کچھ جنسی ویب سائیٹس کو ہیک کیا تو وہاں اسے رادھا کی ویڈیو ملی۔ ویڈیو پر دو سال قبل کیے جانے والے لائیو براڈ کاسٹ کا ٹیگ لگا ہوا تھا۔ ہیکر نے ممبئی پولیس کو آگاہ کیا تو تفتیش کو پورن انڈسٹری سے جوڑ کر تحقیقات کی گئیں۔
ان تحقیقات کے بعد ہولناک اور انتہائی چشم کشا انکشافات سامنے آئے۔۔ رادھا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے انٹر نیٹ پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا۔ ہاتھ اور کلائیاں کاٹنے کے ٹاسک ملے تو ہاتھ اور کلائیاں کاٹی گئیں۔ اعضائے مخصوصہ پر چھریاں مارنے کا ٹاسک ملا تو بے دردی سے چُھریاں ماری گئیں۔۔ اور اس براڈکاسٹ کے لیے کئی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔۔ تحقیقات کا دائرہ اور بڑھایا گیا تو بڑے بڑے بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک لوگ اس قتل کی واردات سے جڑے ہوئے پائے گئے۔ پولیس والوں کے پرَ جلنے لگے تو فائل بند کردی گئی اور آج تک قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ ایسا ہی زینب قتل کیس میں بھی ہوا ہے۔ قصور میں جنسی درندگی کے بعد تشدد اور پھر قتل کایہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ زینب قصور شہر میں قتل کی جانے والی بارہویں بچی ہے۔۔ پولیس کہتی ہے قاتل سیریل کلر ہے لیکن اس تک پہنچ نہیں پاتی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم کی شکل واضح ہونے کے باوجود غلط خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔۔ پولیس کی یہی حرکتیں ہیں جس کے باعث ان بارہ بچیوں میں سے ایک بھی مقتولہ بچی کا کیس آج تک حل نہیں ہوسکا