ابھی دو دن پہلے عید گذری ہے اس عید پر میں نے سوچا تھا کہ کسی کو بھی عید مبارک نہیں کہوں گا عید کی خوشی ضرور منانی چاہیے لیکن عید تو اس وقت ہوتی ہے نا انسان کی جب وہ خوش ہو اور خوشی سے عید منائے اگر عید والے دن کسی کے گھر فوتگی ہو جائے تو اسکے گھر جا کر افسوس کیا جائے گا یا پھر عید مبارک بولا جائے گا ؟ اگر کوئی مبارک دے گا تو لوگ اسکو پاگل ہی کہیں گے کہ انکے ہاں فوتگی ہو گئی ہے اور یہ پاگل عید مبارک بول رہا ہے میں نے جو سوچا تھا کہ کسی کو عید کی مبارک نہیں دونگا اس میں کامیاب رہا بہت سے دوستوں نے واٹس اپ فون پر اور مل کر مبارک باد دی میں نے آگے سے شکریہ کے الفاظ کہ کر یہ سوچنے لگ جاتا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے ہمیشہ یہی سنا ہے اور کشمیر خون سے لت پت ہے اور ہم اپنی گردن کو کٹتے دیکھ کر بھی عید کی خوشیوں میں مصروف ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کی گردن پر چھری رکھی گئی ہو تو اسکے پاس آ کر کوئی اسکو عید مبارک کہ رہا ہو اج 14 اگست کا دن ہے پاکستان کی آزادی کا دن ہے اور آزادی بہت بڑی نعمت ہے زندہ قومیں اپنے قومی دن کو خوب جوش سے مناتی ہیں ہم کو بھی قومی دن منانے کا حق ہے لیکن اگر کسی بندے کا پورا جسم پنجرے سے باہر ہو اور گردن پنجرے میں بند ہو تو اسکو آزادی کہا جائے گا؟کیا اس بندے کو آزادی کی مبارک دی جا سکتی ہے؟ اگر کوئی اسکو آزادی کی مبارک باد دے گا تو وہ پاگلوں میں ہی شمار کیا جائے گا ہم نے تو ہمیشہ یہی سنا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور کشمیر ابھی آزاد نہیں ہے یعنی ہماری گردن دشمن کے شکنجے میں قید ہے اور ہم آزادی مبارک کہ رہے ہیں اور جشن منا رہے ہیں بھائیوں میں عید پر خوشی منانے اور آزادی کا جشن منانے کے خلاف بلکل نہیں ہوں پہلے ہم آزاد تو ہو لیں پر خوب خوشی منائیں گے عید والے دن میں نیوز میں سن رہا تھا کہ فلسطین میں عید کی نماز کے دوران آنسو گیس ماری گی اور مسلمانوں کو عید کی نماز ادا نہیں کرنے دی گئی تو کیا باقی مسلمان عید منانے کے اہل ہو سکتے ہیں میری یہ بات پڑھ کر کچھ لوگ یہ کہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کو دیکھیں اور یہ صاحب کالم میں کشمیر فلسطین اور دوسری دنیا کی بات کر رہے ہیں ان لوگوں کے لیے میں اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کا مفہوم پیش کیے دیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اک جسم کی ماند ہیں اگر جسم کے کسی حصے میں درد ہو تو تکلیف سارے جسم کو ہوتی ہے ہمارا ملک تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہ تو بنا ہی اسلام کے نام پر ہے تو آج یہ حصے کشمیر شہ رگ پر ہونے والے ظلم اور تکلیف کو کیوں محسوس نہ کرے یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیر جل رہا ہو فلسطین کے مسلمان رو رہے ہوں اور برما کے مسلمانوں پر ظلم کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گے ہوں وہاں کے مسلمانوں کو عید کو خوشی منانا تو دور کی بات عید کی نماز بھی نہ پڑھنے دی جا رہی ہو اور ہم خوشی منا رہے ہوں آزادی کا جشن منا رہے ہوں ہمیں آزادی کا جشن مناتے دیکھ کر کشمیر فلسطین اور برما کے مسلمانوں کے دلوں پر کیا گذرتی ہو گی انکا دل خون کے آنسو نہیں روتا ہو گا؟ ہم انکا دل نہیں توڑتے؟ میاں صاحب کے کیا خوب کہا ہے کہ۔
ٹھا دے مسجد ٹھا دےمندر ٹھا دے جو کجھ ٹھیندہ
اک بندےدادل نہ ٹھائیں رب دلاں(دلوں)وچ رہندہ
اس دفعہ ہماری حکومت نے یوم آزادی یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے وہ تو 70سال سے پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر بھی منایا جاتا ہے اس سے کی فرق پڑا آج تک اور آج چودہ اگست کو یکجہتی کے طور پر منانے سے کیا فرق پڑے گا؟ خدا راہ مسلمانو اپنی تاریخ اٹھا کر دیکھو اس میں محمد بن قاسم ۔ ٹیپو سلطان ۔صلاح الدین ایوبی جیسے مرد نظر آئیں گے محمد بن قاسم ایک عورت کی آواز پر لیبک کہتا ہے تلوار لے کر نکلتا ہے تو پھر کون کون سے علاقے فتح کرتا ہے تاریخ گواہ ہے اس بات کی آج ہم کو کشمیر سے ماوں بہنوں بیٹیوں بھائیوں کی آوازیں نہیں آر ہیں یا پھر ہم سن ہی نہیں پا رہے یا پھر سن کر کان بند کر لیے ہیں ۔ اج ہم میں ہمارے اسلاف محمد بن قاسم ۔ٹیپو سلطان جیسا جذبہ کیوں نہیں رہا ۔یا پھر ہمارا ایمان کمزور پڑ گیا ہے ہم کو سوچنا ہو گا
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے مسلمانو
تمھاری داستان تک نہ ہو گی داستانو میں
میرے وطن یہ عقیدتیں اور
پیار تجھ پہ نثار کر دوں
محبتوں کے یہ سلسلے
بےشمار تجھ پہ نثار کر دوں
میرے وطن میرے بس میں ہو تو
تیری حفاظت کروں میں ایسے
خزاں سے تجھ کو بچا کے رکهوں
بہار تجھ پہ نثار کر دوں
تیری محبت میں موت آئے
تو اس سے بڑھ کر نہیں ہے خواہش
یہ ایک جان کیا، ہزار ہوں تو
ہزار تجھ پہ نثار کر دوں
میرے وطن یہ عقیدتیں اور
پیار تجھ پہ نثار کر دوں