پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا

عدالت نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے انتخابی نشان سے متعلق کیس کا فیصلہ دلائل مکمل ہونے پر محفوظ کیا تھا۔عدالتِ عالیہ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت پشاورہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے انتخابی نشان کی حقدار ہے،  الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست نہیں تھا۔دورانِ سماعت قاضی جواد ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل نے پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر سے معلومات لینا چاہیں، جو ان کو نہیں ملیں، میڈیا سے پتہ چلا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے، ہم نے درخواست کی کہ انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں، میرے مؤکل انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے مگر انہیں موقع نہیں دیا گیا۔جسٹس اعجاز انور نے سوال کیا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں؟ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے، آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کیا۔وکیل قاضی جواد نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس لیے ان کے خلاف الیکشن کمیشن گئے۔جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ پشاور میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے جو الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دیے، پشاور ہائی کورٹ کو پٹیشن سننے کا اختیار کیسے نہیں ہے۔قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ دائرہ اختیار کا سوال انتہائی اہم ہے، عدالتوں کے مختلف فیصلوں میں ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کا تعین ہوا ہے، پی ٹی آئی تو لاہور ہائی کورٹ بھی گئی، وہاں ان کی درخواست خارج ہوئی۔جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے لکھا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ کیس زیرِ سماعت ہے، پشاور ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔

Comments (0)
Add Comment