سپریم کورٹ کی جانب سے بریت کے فیصلے کے بعد توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ویمن جیل ملتان سے رہا کر دیا گیا۔
جیل ذرائع کے مطابق آسیہ بی بی کی روبکار بدھ کو ہی ویمن جیل ملتان کو موصول ہوئی تھی جس کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔ صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں یہ واقعہ جون 2009 میں پیش آیا، جب فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین کا مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جھگڑا ہوا جس کے بعد آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔
بعدازاں آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد قاری سلام نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ 5 روز بعد درج کی گئی واقعے کی ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار بھی کیا۔
امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن جس مکان کا ذکر کیا گیا، وہ بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔
جیو نیوز کے مطابق مقدمے کے اندراج کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں توہین رسالت کے جرم میں 295 سی کے تحت انھیں سزائے موت سنا دی جسے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھاتاہم لاہور ہائیکورٹ نے اکتوبر 2014 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
جس پر 2014 میں ہی آسیہ بی بی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں۔
ان اپیلوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے رواں ماہ 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔بشکریہ روزنامہ جنگ