۔مسُلم کمیونیٹیز کے نمائندگان کا ایتھنز میں زیر تعمیر پہلی سرکاری مسجد کا دورہ وزارت مذہبی امور نے مسلم نمائندگان سے منبر و محراب کی تنصیب اورمسجد کے اندرونی حصے میں قرآنی آیات کی نقاشی سے متعلق تحریری تجاویز طلب کرلیں
ایتھنز ( رپورٹ ملک فیصل سمرالہ گریس) گزشتہ دنوں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلم نمائندگان اور علماء کرام نے وتانیکوس کے علاقے میں زیر تعمیر ایتھنزکی پہلی سرکاری مسجد کا دورہ کیا، تفصیلات کے مطابق ایتھنز میں بسنے والی مسلم کمیونیٹیز کے نمائندگان جن میں مصر ، شام ، سوڈان، فلسطین ،مراکش، افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے وزارت مذہبی امور کی دعوت پر ایتھنزمیں تعمیر ہونیوالی پہلی سرکاری مسجد کا دورہ کیا، اِس دوران مسلم نمائندگان کو وزارت مذہب امورکے حکام اور مسجد کے معماروں نے اب تک ہونیوالے تعمیراتی کام کی پیش رفت سے آگاہ کیا اور مسجد میں فراہم کیجانیوالی سہولیات سے متعلق تفصیلی بریفنگ بھی دی ، حکام نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں پیش آنیوالی دشواریوں اور بیروکریٹک رکاوٹوں پر اب قابو پالیا گیا ہے لہذا جلد مسجدکی اندرونی تزئین و آرائش کا کام مکمل ہوتے ہی عبادت کیلئے کھولنے کے خواہاں ہیں اورمسجد کا افتتاح بھی رواں سال متوقع ہے، حکام نے بتایا کہ مسجد کا کُل رقبہ ساڑھے آٹھ سو اسکوائر میٹر ہے اورساڑھے تین سو نمازیوں کی گنجائش ہے جس میں 300مردوں کیلئے بڑاہال جبکہ ساتھ ہی50 خواتین کیلئے چھوٹا ہال تعمیر کیا گیا ہے، آخر میں وزارت مذہبی امور کے حکام نے مسلم نمائندگان سے منبر و محراب کی تنصیب اورمسجد کے اندرونی حصے میں قرآنی آیات کی نقاشی سے متعلق
تحریری تجاویز طلب کیں۔آٹھ لاکھ ستاسی ہزار یورو کی لاگت سے تعمیر ہونیوالی ایتھنز کی پہلی سرکاری مسجد میں کھڑکی دروازوں کی تنصیب، فلورنگ، رنگ روغن ، نکاسی آب، ائیر کنڈیشنگ اور فائر سسٹم ،مسجد کے اندر اور باہر مکینیکل اور الیکٹریکل کام سمیت وضو خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ کا کام مکمل ہوچکا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل فکر ہے کہ شروع سے ہی اِس مسجدکے تعمیر اتی پلان میں مینار و گنبدکو شامل نہیں کیا گیا تھاحالانکہ چند سال قبل مشرق وسطی کے ممالک میں مساجد کی تعمیر کا تجربہ رکھنے کی دعویدار چار یونانی تعمیراتی کمپنیوں کے اشتراک نے تعمیر کرنے کاسرکاری ٹھیکہ حاصل تھا، جس پر گزشتہ برس ترک صدر رجب طیب ایردوگان بھی ایتھنز میں بے مینار و گنبدمسجد کی تعمیر پر عدم اطمینان اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھادوسری جانب شیعہ مسلم کمیونٹی گریس نے بھی متعلقہ وزارت کو اِس ضمن میں تجاویزارسال کی تھیں جس میں اس بات کی جانب توجہ دلائی گئی تھی کہ مینار و گنبد مسجد کااہم جُز ہونے کیساتھ اسلامی ثقافت و روایات کا حصہ بھی ہیں جیسے آتھوڈکس چرچ بغیر گھنٹے کے ادھورُا ہے اُسی طرح ایک مسجد بغیر مینار و گنبد کے ادھورُی ہے ۔یا د رہے کہ ایتھنز میں مسجد کی تعمیر سے متعلق قانون سن 2006میں یونانی پارلیمنٹ سے پاس ہوا تھا مگر وزارت مذہبی امور، وزارت انفراسٹرکچر، بلدیہ ایتھنز اوریونانی بحریہ کے مابین اختیارات کے تعین اور مسجد کیخلاف کونسل آف اسٹیٹ میں دائر ہونیوالی مختلف پٹیشن جیسی قانونی رکاؤٹیں اِسکی راہ میں حائل رہیں جسکے سبب مسجد کی تعمیر شروع نہ ہوسکی یہاں تک کہ سال 2016کے اوائل تک دائیں بازو کے شدت پسند عناصر کے مسجد کی زمین پر قبضہ کرنے باعث تعمیراتی کام کا آغاز تعطل کا شکار رہابعد ازیں اِس طویل جانائز قبضے سے مسجد کی اراضی کو یونانی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کے بعد بالآخرآزاد کرالیا گیا اور تعمیر کا آغاز ہوا۔واضح رہے کہ مختلف اندازوں کے مطابق ایتھنز میں تقریباً دو لاکھ مسلمان آباد ہیں جس کے پیش نظر ابتداء میں مسجد کوپانچ ہزار اور پھر دو ہزار اسکوئر میٹرکے رقبے پر تعمیر ہونا تھاجوکہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ممکن نہ ہوسکا، مسجد کے اطراف میں بقیہ سترہ ایکڑ اراضی پربلدیہ ایتھنز زیر نگرانی پبلک پارک کا تعمیراتی کام بھی جاری ہے جس پر تقریباً چھبیس لاکھ یورو اضافی لاگت آنی ہے تاہم یہ اخراجات بھی سرکاری بجٹ سے پورے کیئے جائینگے، اس پبلک پارک کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ وہاں موجود یونانی بحریہ کے وہ ورک شاپ اور آٹھ گودام بنے رہے جن کو مسمار کرنے کا تخمینہ ابتدائی بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، مسجد میں نمازیوں کی گنجائش کو دیکھتے ہوئے مسلم کمیونیٹیز نے امید ظاہر کی ہے کہ اہم مذہبی اجتماعات کیلئے مسجد کے بیرونی احاطہ کو بھی عبادت استعمال کیا جاسکے گا۔