خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے وفاقی محتسب میں کمشنر کے عہدے پر تعینات سیدہ وقارالنسا کہتی ہیں کہ خواجہ سراؤں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ ہم اپنی ذات کے بارے میں جو اداراک رکھتے ہیں، اسے قبول کیا جائے تو معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس گیا جس نے اسے قبول کیا کہا گیا اور اب سوائے وراثت کے معاملات میں عدالتی حکم کے کسی خواجہ سرا کو شناخت کے لیے میڈیکل بورڈ کے پاس جانا ضروری نہیں ہوگا۔
خود اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’میں مرد کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کرتا رہا۔ میں نے چاہا کہ اسی پہ چلوں جو میری ماں نے مجھے سمجھایا ہے لیکن میں ایسا نہ کر پائی۔‘
’پیدائش کے وقت میری جسمانی ساخت لڑکے والی تھی۔ میں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھی لیکن شروع سے ہی مجھ میں نسوانیت تھی جس کے باعث مجھے لوگوں کی جانب سے اذیت اور طنز و مزاح کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سب کچھ بہت عجیب لگتا تھا۔ سکول جانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ کبھی پیٹ میں درد کبھی کچھ اور بہانہ کر کے چھٹی کر لیتی تھی۔‘زارا نے بتایا: ’سنہ 2014 میں، میں نے خواجہ سراؤں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کیا۔ اس سے مجھ میں اعتماد آیا ار مجھے پتہ چلا کہ میری بھی ایک پہچان ہے۔
جیسے تیسے انٹرمیڈیٹ تک ریگولر پڑھا لیکن پھر پرائیویٹ بی اے کو ترجیح دی۔
17 برس انتظار کے بعد ایک وقت وہ آیا جب میں نے اپنے گھر والوں کو اپنی شناخت اور خواجہ سرا کمیونٹی سے جڑنے کے فیصلے سے آگاہ کرنے کا سوچا۔
جب میں نے انھیں بتایا اس وقت مجھے لگا کہ میری ماما مجھے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیں گی کہ جاؤ انھیں کے ساتھ جا کر رہو لیکن انھوں نے مجھے اپنے گلے سے لگایا اور کہا کہ تم جیسی ہو، جو بھی ہو، مجھے تمھاری خوشی عزیز ہے مجھے تم ایسی ہی قبول ہو۔
کھانا بنانے کی شوقین زارا نے 2016 میں میریٹ ہوٹل اسلام آباد سے فوڈ پریپریشن اور کلنری آرٹ کا کورس کیا۔
’مجھے دبئی میں نوکری مل گئی لیکن وہ وہاں اپنی شناخت کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی تھی کوشش تو بہت کی لیکن پھر میں گذشتہ برس نومبر میں ملک لوٹ آئی اور پھر واپس آکر وہ اپنی کمیونٹی کے لیے کام کرنے لگی۔‘ زارا کی والدہ رومانہ چنگیزی ایک سرکاری ادارے کے ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ میں سینیئر افسر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ زارا بظاہر نارمل بچوں کی طرح تھی لیکن ’ایک چیز جو میں نے ابتدا میں محسوس کی وہ اس کا زیادہ تر میرے ساتھ بیٹھنا اور شروع سے ہی کلاس میں لڑکیوں سے دوستی تھی اور ان سے بات چیت پسند تھی۔ میں نے کبھی اسے غیر معمولی نہیں سمجھا۔ پھر جب اس نے مجھے اپنی شناخت بتائی تو شروع میں تھوڑا سا مشکل تھا میرے لیے لیکن میرے بچے میرے لیے بہت قیمتی ہیں میں نے یہ سب تسلیم کیا کیونکہ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘
’میں یہ سمجھ رہی تھی کہ اسے اندر ہی اندر دل ہی دل میں شرمندگی ہو رہی ہو گی لیکن اس نے مجھے بہت زیادہ اچھے طریقے سے بتایا، مجھے مضبوط بنایا اور کہا کہ مجھے کچھ بھی نہیں ہے مجھے بس آپ کا ساتھ چاہیے اور آپ کا پیار مجھے اسی طرح چاہیے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ میں چاہتی ہوں کہ زارا معاشرے کے لیے ایک مثال بنے اور حقوق کے لیے لڑے۔
’میں اس لیے اس کی حمایت کرتی ہوں۔ میں اس کے ساتھ باہر جاتی ہوں اور مجھے معاشرے کا سامنا کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ مجھے اس پر فخر ہے۔ ‘
زارا نے بتایا کہ پاکستان لوٹنے کے بعد انھیں ایک ٹیلی فلم میں کام کرنے کی آفر ہوئی اور ساتھ ساتھ انھیں چند سکولوں اور کالجوں سے صنفی مساوات سے متعلق لیکچرز اور ریسرچ کے حوالے سے بھی بلایا جاتا ہے۔
’اب میں اپنی جسمانی ساخت کو تبدیل کرنے کے عمل سے بھی گزر رہی ہوں۔ پچھلے چھ ماہ سے میں بیرون ملک سے ہارمون ریپلیسمینٹ تھراپی، ایچ آر ٹی کروا رہی ہوں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ بطور خواجہ سرا اپنی شناخت نہیں چھوڑیں گی۔ ’اپنی کمیونٹی کے لیے کام جاری رکھوں گی کیونکہ آپ جو بھی کر لیں آپ خواجہ سرا ہی رہیں گے۔‘
ان کی والدہ رومانہ کا کہنا ہے کہ جب زارا نے مجھ سے اپنی جسمانی ساخت کی تبدیلی کی بات کی تو میں نے کہا کہ آپ اسی حلیے میں بھی رہ سکتے ہو آگے بڑھ سکتے تو اس نے کہا کہ جب میرے اندر فیلنگز نسوانی ہیں تو میں دوہری شخصیت کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی۔ پھر وہیں میں نے اسے اجازت دے دی۔
’میں یہی پیغام دوں گی کہ اپنے بچوں کو اپنائیں، انھیں معاشرے کی نفرت کا شکار نہ بنائیں اور انھیں مت دھتکاریں۔ شکریہ بی بی سی اردو